تفصیلات کے مطابق گزشتہ روز انویسٹی گیشن شمالی چھاؤنی پولیس نے مفتی عزیز الرحمان کو میانوالی سے گرفتار کیا تھا، پولیس کے مطابق مدرسے میں طالب علم کے ساتھی مبینہ نازیبا ویڈیو کیس کے مرکزی ملزم نے اعتراف جرم کرلیا۔
مفتی عزیزالرحمان نے اپنے اعترافی بیان میں کہا ہے کہ طالب علم سے زیادتی کی ویڈیو میری ہی ہے، مجھ سے غلطی ہوئی ہے اور میں اس پر شرمندہ ہوں، متاثرہ بچے صابر شاہ نے چھپ کر ویڈیو بنائی جس کا مجھے علم نہ تھا، اور مجھ پتہ چلا تو میں نے اسے ویڈیو وائرل کرنے سے منع کیا تاہم میرے منع کرنے کے باوجود اس نے ویڈیو وائرل کردی، اور ویڈیو وائرل ہونے پر میرے بیٹوں نے اسے ڈانٹا، اور دھمکیاں بھی دیں۔
علاوہ ازیں مفتی عزیز الرحمان کو بدفعلی کے مقدمے میں کینٹ کچہری میں پیش کیا گیا۔ پولیس کی جانب سے ملزم کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی گئی۔ عدالت نے ملزم عزیز الرحمان کو 4 دن کے جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا۔ عدالت نے ملزم کے ڈی این اے ٹیسٹ کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ ملزم کا میڈیکل چیک اپ بھی کیا جائے۔
خیال رہے کہ لاہور میں مدرسے جامعہ منظورالاسلام سے منسلک مفتی عزیز الرحمن کی نازیبا ویڈیو لیک ہوئی تھی، جس میں وہ بچے کے ساتھ زیادتی کرتے ہوئے دکھائی دیئے، جس کے بعد پولیس نے بدفعلی کا شکار ہونے والے نوجوان صابر شاہ کی درخواست پر مفتی عزیز الرحمان کے خلاف مقدمہ درج کرلیا، ایف آئی آرکے متن کے مطابق نوجوان صابر شاہ کو جان سے مارنے کی دھمکیاں دی گئیں جس پرپولیس نے مقدمہ میں بدفعلی کرنے اور جان سے مارنے کی دفعات درج کیں۔
گزشتہ روز انویسٹی گیشن شمالی چھاؤنی پولیس نے مفتی عزیز الرحمان کو گرفتار کرلیا۔ پولیس ذرائع کے مطابق مقدمہ درج ہونے کے بعد مفتی عزیز الرحمان لاہور سے دوسرے شہر فرار ہوگئے تھے، پولیس نے مفتی عزیز الرحمان کو میانوالی سے گرفتار کیا۔ جب کہ انویسٹی گیشن پولیس نے مفتی عزیز الرحمان کے دو بیٹوں کو بھی گرفتار کرلیا، جب کہ ان کے دوست عبداللہ نے آج عدالت سے اپنی ضمانت کروالی ہے