مجھے یہ سن کر بہت خوشی ہوئی لیکن حیرت اس بات پر ہوئی کہ محترمہ کو یہ نظم کیسے ملی اور انہیں کیونکر یہ نظم اتنی اچھی لگی کہ انہوں نے اسے اپنی پسندیدہ نظم قرار دے دیا۔ حالانکہ ان کی اُردو زبان میں زیادہ مہارت نہیں تھی۔ یہ نظم میں نے راولپنڈی میڈیکل کالج کے زمانہ طالب علمی میں لکھی تھی۔ اسی کالج میں جنرل ضیاء کا بیٹا انوار الحق اور بیٹی قرۃ العین ضیاء بھی پڑھتے تھے اور یہ نظم کالج میں بہت مقبول تھی۔
10 مئی 1980 کو فوجی حکومت کے ایما پر اسلامی جمیعت طلبہ اور اس کے گماشتوں نے جمہوریت پسند طلبہ پر حملہ کر دیا جس میں 20 کے قریب طالب علم زخمی ہو گئے۔ میری دائیں ٹانگ اور بائیں بازو کی ہڈیاں توڑ دی گئیں۔ اس کی بنیادی وجہ ہماری ترقی پسند سٹوڈنٹس تنظیم کی جانب سے بھٹو شہید کی پہلی برسی کھلے عام منانا اور جنرل ضیاء کے پتلے کو پھانسی دینا تھا۔ اسی زمانے میں جب میں ہولی فیملی ہسپتال راولپنڈی میں زیرِ حراست تھا تو بلجیئم سے پیپلز پارٹی کے ایک سرگرم کارکن ملک اخلاق کے بھائی ملک خالد میرے پاس آئے اور میری نظم مجھ سے لے کر گئے۔ بلجیئم واپسی پر انہوں نے یہ نظم ہالینڈ سے شائع ہونے والے رسالے 'جدوجہد' میں شائع کی جسے اس وقت دو کامریڈز فاروق طارق اور ڈاکٹر تنویر گوندل المعروف ڈاکٹر لال خان ہالینڈ کے شہر ایمسٹرڈیم سے شائع کیا کرتے تھے جو ضیاء آمریت کے خلاف ترقی پسندوں کا مقبول ترین رسالہ تھا۔ یہ حقائق مجھے فاروق طارق نے بتائے۔
1984 میں جب بی بی شہید جلاوطنی میں تھیں تو انہوں نے یہ نظم اسی رسالے سے لی اور انہیں اتنی پسند آئی کہ انہوں نے پہلی مرتبہ یہ نظم 5 جنوری 1985 کو کانوائے ہال لندن میں پڑھی۔ اس مشاعرے کی صدارت معروف شاعر احمد فراز کر رہے تھے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی جانثار جیالی فرخندہ بخاری اپنی کتاب 'یہ بازی عشق کی بازی ہے' میں لکھتی ہیں؛
'میں بھی اس وقت جلاوطنی میں تھی کیونکہ لیبیا سازش کیس میں مجھے بھی زبردستی بیرونِ ملک بھیج دیا گیا تھا۔ یہ بھٹو شہید کی سالگرہ کا دن تھا۔ ایک سیمینار تھا، دوسرا مشاعرہ۔ اس موقع پر بے نظیر نے اُردو کی نظم کچھ ایسے انداز سے پڑھی گویا وہ پیپلز پارٹی کے مستقبل کے دستور اور منشور کا اعلان کر رہی ہیں۔ ہمیں علم نہ تھا کس شاعر کی ہے۔ بعد میں علم ہوا کہ شاعر راولپنڈی میڈیکل کالج کے خالد جاوید جان نے ضیاء الحق کے ظالمانہ مارشل لاء کے نفاذ کے خلاف لکھی تھی لیکن جس طرح اس نظم کو ذوق و شوق، جوش و خروش سے پڑھا ہمیشہ یہ لگتا تھا کہ خود بے نظیر نے حسبِ حال شعر کہے ہیں۔ حقیقت ہے کہ بی بی شاعرہ تھیں'۔
وہ مزید لکھتی ہیں؛ 'جب محترمہ 10 اپریل 1986 کو لاہور آئیں تو جہاں لاکھوں افراد نے ان کا والہانہ استقبال کیا، مینارِ پاکستان پر اپنی تقریر کے آخر میں محترمہ نے یہ نظم جس انداز میں پڑھی وہ صرف مرحومہ کا ہی خاصہ تھا'۔
مینارِ پاکستان کے مقام پر جب بی بی نے یہ نظم پڑھی تو سب سے پہلے آخری بند پڑھا جس میں موت کا ذکر تھا۔ شاید ان کے تحت الشعور میں یہ یقین سمایا ہوا تھا کہ انہیں بھی ایک دن اپنے بابا کی طرح عوام کی خاطر جان قربان کرنی ہے۔ آخری بند سب سے پہلے پڑھنے کے بعد انہوں نے بقایا نظم پڑھی اور آخری بند کو پھر دہرایا۔ وہ بند کچھ یوں تھا؛
میرے ہاتھ میں حق کا جھنڈا ہے
میرے سر پر ظلم کا پھندا ہے
میں مرنے سے کب ڈرتی ہوں
میں موت کی خاطر زندہ ہوں
میرے خون کا سورج چمکے گا
تو بچّہ بچّہ بولے گا
میں باغی ہوں، میں باغی ہوں
جو چاہے مجھ پر ظلم کرو
گویا انہوں نے اپنی جان دے کر ثابت کر دیا کہ وہ کبھی بھی موت سے خوفزدہ نہیں تھیں۔ محترمہ اس نظم کو اپنی پارٹی کا منشور قرار دیتی تھیں کیونکہ سات بندوں پر مشتمل اس نظم کے ہر ایک بند میں استبدادی قوتوں کے سرکردہ نمائندوں کے خلاف بغاوت کا اعلان کیا گیا تھا۔ پہلے بند میں جبر کے نظام کے خلاف، دوسرے بند میں فوجی ڈکٹیٹروں کے، تیسرے بند میں عورتوں کے خلاف مظالم کرنے والوں کے، چوتھے بند میں کرپٹ سیاست دانوں کے، پانچویں بند میں مذہب کے نام پر استحصال کرنے والوں کے، چھٹے بند میں نفرت آمیز رویوں اور آخری یعنی ساتویں بند میں ظلم کے خلاف لڑتے ہوئے جان دینے کے عزم کا اظہار کیا گیا تھا۔
بی بی نے عملی طور پر ساری زندگی انہی اصولوں کے مطابق گزاری۔ مردانہ غلبے کے اس معاشرے میں ان کا وجود بذاتِ خود عورت کی عظمت کا شاندار نمونہ تھا۔ انہوں نے اپنی دو مرتبہ کی مختصر حکومت میں عورتوں کو معاشرے میں اہم اور باوقار کردار ادا کرنے کے لیے پہلی مرتبہ وومن پولیس سٹیشن اور فرسٹ وومن بینک قائم کیا۔ ان کی ساری زندگی فوجی آمریت سے لڑتے ہوئے گزری۔ ان کا اقتدار میں آنا ہی مذہبی اجارہ داروں کی سب سے بڑی شکست تھی جو عورت کی حکمرانی کو خلافِ شریعت قرار دینے میں پیش پیش تھے۔
مجھے ان کی پہلی حکومت میں وزارتِ اطلاعات میں مشیر کی حیثیت سے کام کرنے کا موقع ملا اور میں نے محسوس کیا کہ وہ پاکستان کے معاشرے کو جدید اور روشن خیال معاشرہ بنانا چاہتی تھیں لیکن غیر سیاسی طاقتوں اور ان کے گماشتوں نے ان کی حکومت کے خلاف سازشیں شروع کر دیں اور انہیں صرف ڈیڑھ سال کے بعد اقتدار سے محروم کر دیا گیا۔ اس کے باوجود انہوں نے غریب طبقوں کے لیے جو کام سرانجام دیے اور جس طرح میزائل ٹیکنالوجی سے دفاعِ وطن کو مضبوط کیا عوام انہیں 3 سال کے بعد دوبارہ برسرِ اقتدار لے آئے۔
اقتدار سے پہلی مرتبہ محروم ہونے کے بعد جب 1992 میں محترمہ، نواز حکومت کے خلاف لانگ مارچ کی قیادت کر رہی تھیں تو ان کی سیکرٹری کا مجھے فون آیا کہ وہ میری انقلابی شاعری کے مجموعے 'میں باغی ہوں' کی تقریب میں شرکت کے لیے آنا چاہتی ہیں۔ یہ تقریب 27 نومبر 1992 کو لاہور جمخانہ کے سامنے واقع انٹرنیشنل ہوٹل میں منعقد ہوئی۔ یہ ایک شاندار تقریب تھی جس میں محترمہ نے یہ نظم بڑے جوش و خروش سے پڑھ کر سامعین کو مسحور کر دیا۔ اس تقریب کی نظامت معروف اداکار مصطفیٰ قریشی نے کی اور میری ایک اور نظم 'دُخترِ مشرق' پڑھ کر سنائی جو محترمہ کے بارے میں لکھی گئی تھی۔ دیکھیے وہ اس پر کس طرح پوری اتریں۔
دُخترِ مشرق
مشرق کی اک بیٹی کے فولادی جذبوں نے آخر
اتنی دہشت طاری کر دی جبّاروں، قہّاروں پر
انسانوں کے دشمن سارے
آنے والے کل کے ڈر سے
کیسے تھر تھر کانپ رہے ہیں
میدانوں سے بھاگ رہے ہیں
جس نے اپنے ہر اک غم کو طاقت میں تبدیل کیا ہے
اپنی خوں میں ڈوبی چادر سے پرچم تشکیل دیا ہے
آزادی، جمہور کا پرچم
اندھیارے میں نور کا پرچم
جس سے صبحِ نو ابھرے گی
ٹوٹ کے ہر زنجیر گرے گی
جس نے صدیوں سے کچلی عورت کو اس کی عظمت دی
آدھا جس کو کہتے تھے سب، اس کی ذات مکمل کی
موت کی آنکھ میں ڈالی آنکھیں
روکی ہر جابر کی راہیں
قید و بند اور موت کی دھمکی
لغزش اس میں لا نہ سکی تھی
جو اس دور کے فرعونوں کے رستے کی دیوار بنی ہے
ہر ظالم کے سر پہ لٹکتی، حیدر کی تلوار بنی ہے
نرم و نازک پھول سی لڑکی
روشن روشن چہرے والی
جس کے ساتھ دُعائیں سب کی
جس کے سر پہ درائیں سب کی
ایک نئی تاریخ لکھے گی
اس کا روشن باب بنے گی
اور پھر وقت نے دیکھا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو نے نا صرف ایک نئی تاریخ رقم کی بلکہ اس کا روشن باب بھی بنیں۔ پیپلز پارٹی کے نوجوان چیئرمین بلاول بھٹو زرداری بھی ان کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے ان کی پسندیدہ نظم کو پڑھتے ہیں تو بجا طور پر یہ کہتے ہیں 'وہ باغی تھی، میں باغی ہوں' کیونکہ وہ واقعی اس ظلم کے نظام کے خلاف اور ظالموں کے ہر طبقے کے خلاف باغی تھیں۔ بغاوت کا یہ جھنڈا اب ان کے لخت جگر کے ہاتھ میں ہے۔