بلوچستان کا تعلیمی بحران: کیا کوئی توجہ دے رہا ہے؟

12:58 AM, 21 Mar, 2019

نیا دور
کوئٹہ شہر کے مضافات میں اختر آباد میں موجود سرکاری پرائمری سکول میں تمام بنیادی سہولتوں کا فقدان ہے۔ کرسیوں اور فرنیچر کی عدم دستیابی کے باعث طالبعلم فرش پر بیٹھنے پر مجبور ہیں جبکہ سکول کے بیرونی احاطے میں کوئی دیوار بھی موجود نہیں ہے۔ اس کے علاوہ ان ٹوٹی دیواروں پر اکثر دھمکی آمیز پیغامات لکھے ملتے ہیں۔ یہ سکول 90 کی دہائی میں تعمیر ہوا تھا اور اس وقت یہاں 45 طلبہ داخل ہیں جبکہ تین سال قبل یہ تعداد 90 کے لگ بھگ تھی۔ اس سکول کو دو اساتذہ چلاتے ہیں جن کا کہنا ہے کہ انہیں حکومت سے گذشتہ کئی برسوں سے کسی قسم کی مالی معاونت نہیں فراہم کی گئی۔ سکول میں پڑھانے والے ایک استاد کا کہنا ہے کہ "حکومت نے سکول کے سالانہ اخراجات کیلئے 2 لاکھ 40 ہزار روپے مختص کر رکھے ہیں لیکن یہ رقم گذشتہ کئی سال سے ادا نہیں کی گئی"۔



بلوچستان جو رقبے کے اعتبار سے سب سے بڑا اور وسائل کے لحاظ سے سب سے امیر صوبہ ہے، ابھی بھی تمام صوبوں کے مقابلے میں پسماندہ ترین ہے اور بالخصوص تعلیم کے شعبے کو یہاں یکسر نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ اکیڈمی آف ایجوکیشنل پلاننگ اینڈ مینیجمنٹ (AEPAM) جو کہ وفاقی وزارت تعلیم کی ایک ذیلی تنظیم ہے اس کی سالانہ رپورٹ ( پاکستان ایجوکیشن سٹیٹسکس 2016 -2017) کے مطابق بلوچستان میں 5 سال سے 16 سال کی عمر والے بچوں کی 79 فیصد تعداد سکول نہیں جاتی۔ اعداد و شمار کے مطابق 19 لاکھ سے زائد بچے جن میں 927,542 لڑکے اور 984,542 لڑکیاں شامل ہیں، سکول نہیں جاتے۔ اس کے مقابلے میں فاٹا میں 57 فیصد، سندھ میں 52 فیصد اور پنجاب میں 40 فیصد بچے سکولوں میں نہیں جاتے۔ خیبرپختونخوا میں سکول نہ جانے والے بچوں کا تناسب سب سے کم 34 فیصد ہے۔ ملک بھر میں سکول نہ جانے والے بچوں کا تناسب 44 فیصد ہے۔ ان بچوں کے سکول نہ جانے کی ایک بڑی وجہ صوبے میں محفوظ تعلیمی نظام کی عدم موجودگی ہے۔ بلوچستان میں قائم سرکاری سکولوں کو نہ صرف شدت پسندوں اور علیحدگی پسندوں کی جانب سے دھمکیوں کا سامنا ہوتا ہے، بلکہ کمزور تعمیرات کے باعث بچوں کی جانوں کو بھی خطرات درپیش رہتے ہیں۔

https://www.youtube.com/watch?v=x1JDo68rde0

ساتویں این ایف سی ایوارڈ کے بعد بلوچستان کے تعلیمی بجٹ میں بہت حد تک اضافہ ہوا ہے۔ مالیاتی سال 2010 -2011 اور 2017-2018 کے درمیان بلوچستان کا تعلیمی بجٹ تین گنا اضافے کے ساتھ بڑھ کر 19.4 ارب روپے سے 55.3 ارب روپے تک جا پہنچا ہے۔ بلوچستان میں 2012-2013 میں تعلیمی بجٹ کی شرح 14 فیصد تھی جو 2013-2014 میں 18 فیصد تک پہنچ گئی، جس سے اس وقت کی قوم پرستوں کی صوبائی حکومت کے شعبہ تعلیم کی حالت زار بہتر بنانے کے شواہد نظر آتے ہیں۔ تعلیم کے بجٹ کی شرح اگلے دو سالوں میں مزید بڑھی اور 2015-16 میں 20 فیصد تک پہنچ گئی۔ بلوچستان کی صوبائی حکومت نے 2013 سے 2017 کے درمیان 48 ارب روپے تعلیم کے فروغ کیلئے مختص کیے جبکہ 2008-2009 سے 2013 کے درمیان محض 12 ارب روپے مختص کیے گئے تھے۔ 2018-19 کے بلوچستان کے سالانہ بجٹ میں 56 ارب روپے تعلیم کے شعبے کیلئے مختص کیے گئے جس میں سے 43.9 ارب روپے سکولوں اور 8.5 ارب روپے اعلیٰ تعلیم کیلئے مختص کیے گئے۔ سیکرٹری تعلیم نورالحق کا کہنا تھا کہ بجٹ کا زیادہ حصہ جو 47 ارب روپے کے قریب ہے غیر ترقیاتی کاموں کیلئے مختص کیا گیا ہے۔ جبکہ 9 ارب روپے ترقیاتی منصوبوں پر خرچ کیے جائیں گے۔



بلوچستان نے 2013 سے لے کر اب تک تعلیم کیلئے مختص کیے گئے بجٹ کا 85 فیصد حصہ ہر سال استعمال کیا ہے۔ لیکن تعلیم کیلئے ترقیاتی منصوبوں کے بجٹ کا مختص ایک بڑا حصہ استعمال نہیں کیا گیا۔ اندازاً 2013 سے 2017 کے دوران تعلیم کیلئے بجٹ میں سے مختص 38 ارب روپوں میں سے 30 فیصد یعنی 11 ارب روپے کہیں استعمال نہیں کیے جا سکے۔ خرچ نہ کرنے والے بجٹ کا تناسب 2013-2014 میں سب سے زیادہ تھا جب آدھے سے زیادہ مختص بجٹ کو کسی کام میں نہیں لایا جا سکا تھا۔ 2014-2015 میں بلوچستان حکومت نے تعلیم کے شعبے کیلئے 49.7 ارب روپے مختص کیے تھے، جس میں 29 ارب روپے غیر ترقیاتی مقاصد اور 11.7 ارب روپے ترقیاتی مقاصد کیلئے مختص کیے گئے تھے۔



اسی طرح 2015-2016 میں 48 ارب روپے سالانہ بجٹ میں سے مختص کیے گئے تھے جس میں سے 38 ارب روپے ترقیاتی کاموں اور 10 ارب روپے غیر ترقیاتی کاموں کیلئے مختص کیے گئے تھے۔ 2016-2017 میں صوبائی حکومت نے تعلیم کے شعبے کیلئے اتنی ہی رقم پھر مختص کی لیکن اس دفعہ غیر ترقیاتی فنڈ کو بڑھا کر 42 ارب روپے اور ترقیاتی فنڈ کو گھٹا کر محض 6.3 ارب روپے تک کر دیا۔ بعد ازاں 2017-2018 میں صوبائی حکومت نے تعلیم کیلئے 55 ارب روپے مختص کیے جس میں 45.8 ارب روپے غیر ترقیاتی اخراجات اور 9.5 ارب ترقیاتی منصوبوں کیلئے رکھے گئے۔ گو بلوچستان حکومت نے گذشتہ پانچ برسوں کے دوران بجٹ کا 25 فیصد حصہ تعلیم کیلئے مختص کیا ہے جو کہ 200 ارب روپے بنتا ہے۔ اس میں سے 155 ارب روپے غیر ترقیاتی فنڈز (ملازمین کی تنخواہوں) اور 45 ارب روپے صوبے میں ترقیاتی منصوبوں کیلئے مختص کیے گئے پھر بھی صوبے میں موجود 11 ہزار 627 سکولوں میں سے 6 ہزار سکول چھت کے بنا موجود ہیں۔



ان سکولوں کے کمروں میں چھت موجود نہیں ہے۔ ان میں سے زیادہ تر سکول ایک کمرے پر مشتمل ہیں جہاں صرف ایک استاد موجود ہوتا ہے۔ محکمہ تعلیم کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر یہ بتایا کہ "بچے موسم اور ماحولیاتی حوادث کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔ تقریباً 6700 سکولوں کو تعمیر نو کی ضرورت ہے۔ تقریباً 2500 کے لگ بھگ سکولوں کی ایسی عمارات موجود ہیں جو خطرناک تصور ہوتی ہیں"۔ مثال کے طور پر کوئٹہ میں موجود گورنمنٹ گرلز پرائمری سکول فتح باغ کی عمارت طالبات کے لئے خوف کی علامت ہے۔ اس عمارت کو کرائے پر دیا گیا ہے اور اس کی حالت انتہائی مخدوش ہے۔ یہاں بچیاں تباہ شدہ چھتوں تلے وقتی کلاس روموں میں (بجلی اور گیس کی سہولیات کے بنا) اور سردی گرمی میں کھلے آسمان تلے پڑھتی ہیں۔ یہ سکول 1988 میں تعمیر کیا گیا تھا اور کرائے پر چلایا جاتا ہے۔ عمارت کی حالت ابتدا سے ہی مخدوش تھی اور اب برفباری اور شدید بارشوں کی صورتوں میں خدشہ ہے کہ کلاس روموں کی چھت کسی بھی دن گر سکتی ہے۔ صرف عمارتوں کی تباہ کن صورتحال ہی طلبہ میں عدم تحفظ کے احساس کو اجاگر نہیں کر رہی بلکہ حکومت کی اس میں عدم دلچسپی بھی ایک اور پریشان کن وجہ ہے۔
مزیدخبریں