یاد رہے کہ انوائرمینٹل پروٹکشن ایجنسی (ای پی اے) کی جانب سے خیبر پختونخوا کلائیمیٹ چینج پالیسی جون 2016ء میں مکمل ہوئی۔ پالیسی میں حکومت نے کمزور طبقوں پر کلائیمیٹ چینج کے اثرات، متاثرہ عوام کو صحت کی بہتر سہولیات مہیا کرنے اور کلائیمیٹ چینج کے حوالے سے عوام میں شعور پیدا کرنے کی کوششوں پر زور دیا۔
مردان دیہی کونسل چاربانڈہ سے تعلق رکھنے والے 33 سالہ ایاز خان نے پشاور یونیورسٹی سے ماسٹرز کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے، اور ان دنوں اپنے آبائی پیشے زمین داری سے منسلک ہیں۔ ایاز خان نے اپنے کھیتوں میں گاجر بوٹی کے تیزی سے پھیلنے اور اس کے اثرات کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا، سب سے بڑا مسلہ تو یہ ہے کہ مزدور خارش کی وجہ سے کھیتوں میں کام کرنے پر ہی تیار نہیں ہوتے۔ ہم زیادہ پیسے دینے کو تیار ہیں لیکن مزدور پھر بھی نہیں آتے۔ انہوں نے کہا کہ پہلے مزدور خارش کی شکایت نہیں کرتے تھے لیکن گاجر بوٹی کے پھیلنے سے خارش کا مرض بڑھ گیا ہے۔
ایاز خان نے گاجر بوٹی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ گاجر بوٹی چاربانڈہ اور آس پاس کے علاقوں میں تیزی سے پھیل رہی ہے جس سے زمین دار متاثر ہو رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پارتھینیم کھیتو ں کے اندر، کونوں کھدروں، نالیوں اور راستوں کے اردگرد بلکہ ہر جگہ موجود ہے جس سے علاقے کے تمام کاشت کار پریشان ہیں۔ ایاز خان نے مزید کہا، اس بارے میں کچھ معلوم نہیں کہ یہ بوٹی کس موسم میں اُگتی ہے، دوسرا، یہ 24 گھنٹے کھڑی رہتی ہے اور جہاں ایک بوٹی پیدا ہوجائے تو چند مہینوں بعد اس کی تعداد سینکڑوں میں ہو جاتی ہے۔ ایاز خان نے گاجر بوٹی کو ختم کرنے کے لیے مختلف سپرے بھی استعمال کیے ہیں لیکن یہ بوٹی ختم ہونے کے بجائے دن بدن پھیلتی جا رہی ہے۔
پارتھینیم سے صرف ایاز خان کے کھیت ہی متاثر نہیں ہوئے بلکہ یہ بوٹی ضلع مردان کے بیش تر زرعی علاقوں، راستوں، نہروں، پانی کی نالیوں اور مردان رنگ روڈ کے اردگرد اب بھی موجود ہے۔
کھیتوں میں کام کرنے والے 60 سالہ مزدور شیر افضل نے خارش زیادہ ہونے کے حوالے سے کہا کہ پہلے ہم کھیتوں میں کام کرنے کے بعد انہی کپڑوں میں سو جایا کرتے تھے لیکن اب خارش بہت زیادہ ہوتی ہے جس کے باعث یہ کام کرنا ناممکن ہو گیا ہے۔
https://youtu.be/HgiEJ8IkpKc
مردان کے مصروف ترین ملاکنڈ چوک میں فہیم الدین کاکا خیل گزشتہ 30 برسوں سے جلدی الرجی کی ادویات کی فروخت کے حوالے سے معروف میڈیسن سٹور کے مالک ہیں۔ انہوں نے خارش کے مرض کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں کہا کہ گزشتہ کچھ عرصہ کے دوران جلدی الرجی کے مریضوں کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اُن کے پاس مردان کے مختلف علاقوں سے لوگ آتے ہیں۔ اس میں شبہ نہیں کہ لوگ پہلے بھی خارش کی شکایت کیا کرتے تھے لیکن اب ان کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔
ضلع مردان کی آبادی قریباً 22 لاکھ ہے اور ضلع بھر میں 50 بیسک ہیلتھ یونٹ، 6 رورل ہیلتھ سنٹرز،5 ٹائپ ڈی ہسپتال، ایک تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال اور دو بڑے ہسپتال قائم ہیں۔ ان میں سے صرف مردان میڈیکل کمپلکس کے سکن او پی ڈی کے ریکارڈ کے مطابق، ایک ہفتہ کے دوران دو سے اڑھائی سو مریض طبی معائنہ کے لیے آتے ہیں۔
ہسپتال کے ریکارڈ کے مطابق جنوری 2015ء سے ستمبر 2018ء تک، قریباً ساڑھے تین برسوں کے دوران 145600 مریضوں نے سکن او پی ڈی میں چیک اپ کروایا۔
ہسپتال کی سکن او پی ڈی سے منسلک میڈیکل آفیسر ڈاکٹر لال ذادہ اور سنیئر سکن سپیشلسٹ ڈاکٹر محمد اقبال نے کہا کہ ماضی کی نسبت سکن الرجی کے مریضوں میں اضافہ ہوا ہے۔ دونوں ڈاکٹروں نے یہ کہا کہ زیادہ تر لوگ خارش کی شکایت لے کر آتے ہیں۔
عالمی غیرسرکاری ادارہ "کے بی" پاکستان میں پارتھینیم پر ریسرچ کر رہا ہے جس کی شائع کردہ معلومات کے مطابق گاجر بوٹی ایک زہریلی بوٹی ہے جو پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا اور پنجاب میں تیزی سے پھیل رہی ہے۔ ادارے کے مطابق، زہریلی گاجر بوٹی ناصرف زراعت کے لیے خطرناک ہے بلکہ جانوروں اور انسانوں کی صحت کو بھی متاثر کرتی ہے۔
ادارے کے مطابق گاجر بوٹی جلدی الرجی کے علاوہ دمہ سمیت سانس اور جلد کی مختلف بیماریوں میں اضافے کا باعث بن رہی ہے۔
یاد رہے کہ خیبر پختونخوا میں حکومت کی طرف سے گاجر بوٹی کے اثرات سے بچنے اور عوام میں اگاہی پیدا کرنے کے لیے اب تک کسی منصوبے پر کام شروع نہیں ہوا۔
پشاورمیں انوائرمینٹل پروٹیکشن ایجنسی (ای پی اے) کے مطابق پارتھینیم کے حوالے سے محکمہ زراعت نے بھی ابھی تک ای پی اے کے ساتھ فی الحال کسی قسم کی معلومات کا کوئی تبادلہ نہیں کیا۔
خیبر پختونخوا کے میدانی علاقوں کےعلاوہ گاجر بوٹی پہاڑی علاقوں میں بھی اُگتی ہے۔ سوات، اپر اور لوئر دیر میں لوگوں سے گاجر بوٹی کے متعلق معلوم ہوا کہ وہاں بھی اس بارے میں عام لوگ کوئی خاص معلومات نہیں رکھتے کہ یہ زہریلی بوٹی کہاں سے آئی اور کیوں ان علاقوں میں تیزی سے پھیل رہی ہے؟ لیکن پہاڑوں کے کناروں، پہاڑی نالوں اور دریائے سوات کے کنارے گاجر بوٹی اب بھی موجود ہے۔
خیبر پختونخوا ایگریکلچر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ترناب فارم میں پارتھینم پر ریسرچ کرنے والے ڈاکٹر ریاض افریدی کہتے ہیں کہ لاطینی زبان میں گاجر بوٹی کو پارتھینیم ہسٹوروفورس کہتے ہیں۔ اور اس کے متعدد دوسرے نام بھی ہیں جن میں سنٹا میریا اور فیمن ویڈ یعنی قحط کی بوٹی وغیرہ شامل ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ پارتھنیم کے بیج 1800ء میں افریقہ سے امدادی غلے کے طور پر انڈیا کے شہر پونا لائے گئے تھے جو بعد میں برصغیر پاک و ہند میں پھیل گئے۔ ڈاکٹر ریاض نے کہا کہ اس نوعیت کی جنگلی بوٹیاں انسانوں، گاڑیوں، جانوروں، مختلف زرعی مشینریوں، سیلاب اور ہوا کے زریعے پھیلتی ہیں۔
انہوں نے یہ حیرت انگیز انکشاف بھی کیا کہ پارتھینیم کا ایک بیج زمین پر گرنے سے 20 سے 25 ہزار تک بیج پیدا کر سکتا ہے۔ اور ایک بار اگر یہ کسی علاقے میں اُگ آئے تو اگلے سات برس تک وہاں سے اس کا خاتمہ ممکن نہیں ۔ ڈاکٹر افریدی نے کہا کہ کہ پارتھینیم کے اُگنے کے بعد چار مہینوں میں اس پر پھول آ جاتے ہیں اور یہ مسلسل آٹھ مہینوں تک پھول اور بیج دیتا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر ریاض نے کہا کہ ماحولیاتی تبدیلی نے اس جنگلی بوٹی کے لیے ماحول سازگار بنا دیا ہے۔ اس نوعیت کی بوٹیوں کے منفی اور مثبت دونوں طرح کے اثرات ہوتے ہیں۔ پارتھینیم میں یہ خاصیت ہے کہ یہ بہت جلد ماحول میں ڈھل جاتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ خیبر پختونخوا کی اب و ہوا پارتھینیم کی طرح کی بوٹیوں کے لیے سازگار ہے لیکن یہ صوبے کی زرعی معیشت کے لیے نہایت ضرر رساں ہے۔
ڈاکٹر ریاض نے تفصیل سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پارتھینیم میں زہریلہ مواد اس قدر زیادہ ہوتا ہے کہ اگر ایک نارمل شخص، جسے الرجی نہ بھی ہو، وہ بھی پارتھینیم چھو جانے کے باعث الرجی کا شکار ہو جاتا ہے۔ اور اگر جانور اس کو کھا لیں تو ان کا معدہ خراب ہو جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا، پارتھینیم کے پھولوں پرایک خاص قسم کا زہریلا مواد موجود ہوتا ہے اور اگر شہد کی مکھی اس پھول پر بیٹھ جائے تو وہ اس زہریلے مواد کو جذب نہیں کر سکتی اور مر جاتی ہے جس کے باعث پولینیشن کا سلسلہ ٹوٹ جاتا ہے، اور اس دنیا میں ہریالی صرف پولینیشن کی بدولت ہی ہے۔
ڈاکٹر ریاض نے کہا کہ پارتھینیم سبزیوں میں بینگن، آلو، ٹماٹر، بند گوبھی اور دوسری فصلوں جیسا کہ گندم وغیرہ پر بھی منفی اثرات مرتب کرتی ہے اور ان فصلوں کی پیداوار کم ہو جاتی ہے۔
ضلع مردان میں گاجر بوٹی کے تیزی سے پھیلنے اور سکن الرجی کے مریضوں کی تعداد میں اضافے کے بارے میں نہ تو زمین دار ایاز خان باخبر ہے اور نہ ہی حکومت….. تاہم سکن الرجی کے علاج کے لیے سینکڑوں قسم کی ادویات پاکستان کے ہر میڈیکل سٹور پر فروخت کے لیے دستیاب ہیں۔
ایک عالمی فارماسیوٹیکل کمپنی سے گزشتہ 12 برس سے منسلک ایک میڈیکل ریپریزینٹیٹو نے نام ظاہر نہ کرنے شرط کی پر کہا کہ حالیہ کچھ عرصہ کے دوران سکن الرجی کی مصنوعات میں ناصرف اضافہ ہوا ہے بلکہ ہر قومی اور عالمی میڈیسن کمپنی سکن الرجی سے متعلق مختلف نوعیت کی مصنوعات تیار کر رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر ایک میڈیسن کمپنی 80 مختلف طبی مصنوعات تیار کرتی ہے تو ان میں سے 35 صرف جلدی امراض کے علاج کے لیے ہوتی ہیں۔
سکن الرجی کی ادویات کی اس قدر مقبولیت کے بارے میں ضلع مردان سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر آف ویٹرنری میڈیسن گوہر علی نے کہا کہ اینٹی بائیوٹک ادویات کے بعد سکن الرجی کی ادویات سب سے زیادہ فروخت ہوتی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ جلدی امراض کی ادویات کی تیاری اب ایک صنعت کی شکل اختیار کر چکی ہے۔
ضلع مردان کے مصروف ترین ملاکنڈ چوک میں واقع کاکا خیل میڈیسن سٹور میں بھی قومی اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کی سکن الرجی کے کے علاج کے لیے مختلف ادویات فروخت کے لیے دستیاب ہیں۔ فہیم الدین کاکا خیل کا کہنا تھا کہ ماضی میں فارماسیوٹیکل کمپنیوں کی تعداد کم تھی تو خارش سے متاثرہ لوگ بھی کم تھے، جب سے ان کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے، تب سے سکن الرجی کے مریضوں کی تعداد بھی بڑھی ہے۔