اس وقت پنجاب بھر میں ہینڈ سینیٹائزرز اور ماسک کی قلت ہوگئی ہے اور فیس ماسک کہیں پر بھی دستیاب نہیں ہیں۔ لاہور میں اس وقت میڈیکل سٹورز ہر ماسک دستایب ہی نہیں جبکہ 250 ملی لیٹر والا سینیٹائزر 500 روپے تک کا مل رہا ہے۔
دوسری جانب فیصل آباد میں بھی فیس ماسک کہیں دستیاب نہیں جبکہ میڈیکل سٹورز نے ماسکس کی عدم دستیابی سے متعلق دکانوں پر نوٹسز لگا رکھے ہیں۔ یہاں بھی ہینڈ سینیٹائزرز عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہو چکے ہیں۔
گوجرانوالہ اور ساہی وال ڈویژنز میں ایک ایک ماسک 100 روپے تک کا مل رہا ہے جبکہ اکثر جگہ پر یہ دستیاب نہیں ہے۔ گوجرانوالہ کی انتظامیہ نے کئی ہزار اسک ذخیرہ کرنے والے افراد کے خلاف کارروائیاں بھی کی ہیں تاہم وہ شہر میں اس کی قلت ختم کرنے سے قاصر ہیں۔
سرگودھا ڈویژن میں بھی یہی حال ہے جہاں ماسک غائب ہیں اور خریدار ریڑھیوں پر موجود چائنہ ماسک لینے پر مجبور ہیں جن کی طبی افادیت کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں۔ یاد رہے کہ سرگودھا ڈویژن کا ضلع بھکر خیبرپختوخواہ کے ساتھ پنجاب کا سرحدی ضلع ہے تاہم وہاں پر مویشی منڈیوں سے لے کر دیگر عوامی اجتماعات جاری ہیں جس میں بلوچستان، کے پی اور سندھ سے بڑی تعداد میں افرادآرہے ہیں۔ ذرائع نے بتایا ہے کہ بھکر میں ایک بڑی تعداد قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے افراد کی بھی آباد ہے۔ جن کے ہاں کے پی اور قبائلی علاقوں سے افراد کا آنا جانا جو کہ عام حالات میں تو عام بات ہے لیکن اس وبا کے خطرے بھی جاری جس پر انتظامیہ کا کوئی کنٹرول نہیں ہے۔
ڈیرہ غازی خان وہ ڈویژن ہے جس کے حوالے سے خدشات ظاہر کئے جا رہے تھے کہ یہ پنجاب کا تفتان بننے جا رہا ہے کیونکہ تفتان سے آنے والے زائرین کا وہاں بسیرا ہے۔ ڈی جی خان کے قرنطینہ میں فرائض سرانجام دینے والے ایک ڈاکٹر نے نیا دور سے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط کے ساتھ بتایا کہ شہر میں خوف و ہراس ہے۔ قرنطینہ کے انتظمات بھی عالمی سفارشات کے مطابق نہیں ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ افواہوں کا بازار گرم ہے۔ ایسے میں شہر سمیت ہورے ڈویژن میں ماسک کی قلت ہے۔ یہ معلوم ہوتے ہوئے کہ یہ شہر اور ڈویژن پنجاب کا سرحدی ڈویژن ہے یہاں کی انتظامیہ اور پنجاب حکومت نے کوئی غیر معمولی اقدامات نہیں کیئے ہوئے۔
ملتان ڈویژن میں بھی ملتی جلتی صورتحال ہے۔ گو کہ کرونا کے کیسز ملتان میں سامنے آچکے ہیں تاہم حکومت ابھی بھی وہاں ماسک اور سینیٹائزرز کی فراہمی یقینی نہیں بناسکی ہے۔ نشتر ہسپتال کے ڈاکٹرز بھی سہولیات کی عدم موجودگی پر احتجاج کر چکے ہیں۔
راولپنڈی ڈویژن میں بھی میڈیکل سٹورز ماسک نہیں بیچ رہے۔ انہوں نے بورڈ آویزاں ہیں کہ ماسک دستیاب نہیں ہیں۔ شہر میں کرونا کے حوالے سے خوف و ہراس ہے تاہم وفاقی دارلحکومت سے جڑواں اس شہر کی انتظامیہ غیر معمولی انتظامات تو دور ماسک کی فراہمی یقینی نہیں بنا سکی۔
بہاولپور میں بھی ماسک جنس نایاب بن چکی ہے۔ جبکہ 500 ملی لیٹر سینیٹائزر کی 1000 روپے تک ہے۔ ذرائع کے مطابق شہر میں صابن کی قیمت پر بھی دوکاندار من مانا منافع وصول کر رہے ہیں اور انتظامیہ کی جانب سے کوئی ایکشن سامنے نہیں آرہا۔
اس حوالے سے وزیر صحت پنجاب یاسمین راشد کا کہنا ہے کہ انتظامیہ اور پنجاب حکومت تمام شہروں میں ماسک کی قلت نہیں ہونے دے رہے۔ ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں عوام افراتفری نہ پیدا ہونے دیں۔