مغربی تہذیب اور خاندانی ادارہ

مغربی تہذیب اور خاندانی ادارہ
اٹلی میں کرونا وائرس سے جاں بحق ہونے والے زیادہ تر افراد ضعیف ہیں۔ رشیا، یورپ اور جاپان سمیت بہت سارے ممالک میں ضعیف لوگوں کی تعداد نوجوانوں اور کمسن بچوں سے بہت زیادہ ہے جس کی بڑی وجہ باقاعدہ شادی اور بچے پیدا نا کرنا ہے۔

رشیا میں دو بچے پیدا کرنے والے خاندان کو دس ہزار ڈالر کے برابر انعامی رقم جبکہ تین بچوں والے خاندان کو Big Family کا درجہ دیتے ہوئے سینما گھروں، تھیٹر، ٹرانسپورٹ کے مفت پاسسز اور پارکنگ فیس معاف کر دی جاتی ہے۔ Big family کو سال میں اضافی چھٹیوں سے بھی نوازا جاتا ہے۔ ان تمام مراعات کے باوجود رشیا میں لوگ بچے پیدا نہیں کرتے اور یہی وجہ ہے کہ رشیا رقبے کہ اعتبار سے پاکستان کی نسبت 25 گنا بڑا ملک جبکہ اس کی آبادی پاکستان سے 33 فیصد کم ہے۔

دولت اور عیاشی سے مالا مال ایسے تمام ملک جہاں خاندانی ادارہ کمزور ہے وہاں لوگوں میں ڈپریشن کی بیماری عام پائی جاتی ہے جبکہ غربت بےروزگاری کے باوجود پاکستان میں ہر شخص ذہنی سکون اور پر لطف زندگی گزارتا ہے کیونکہ ہمارے گھروں میں لاڈ پیار کرنے والی مائیں، شفیق باپ، شرارتی بھائی، احساس کرنے والی بہنیں اور دل بہلانے والی نعمتیں بچوں کی صورت میں موجود ہوتی ہیں۔

رب کائنات نے اس دنیا کا نظام چلانے کیلئے شادی کا ادارہ قائم کیا ہے جس کیلئے کچھ قوانین بھی وضع کئے ہیں۔ اب اگر آپ قدرت کے قوانین کے خلاف جائیں گئے تو بے شمار بیماریوں اور معاشرتی بگاڑ کو جنم دیں گئے جس کا شکار کم از کم اس وقت پاکستان تو نہیں ہے۔ اسی لئے ہم غریب لیکن خوش ہیں۔ مگر انٹرنیٹ اور میڈیا پر دکھائی جانے والی مغرب کی ظاہری رنگینی ہماری نوجوان نسل میں احساس کمتری کا ناثور پیدا کر رہی ہے۔ احساس کے جذبے سے مالامال ہم پاکستانیوں کو مغربی تہذیب کو اپنانے سے پہلے ان کے معاشرتی پہلوؤں کا بھی بغور جائزہ لینا چاہیے۔ کامیاب ممالک سے سائنس، علم و ٹیکنالوجی سمیت دیگر اچھی چیزیں ضرور سیکھیں لیکن اپنے نظام اور پاکستانیت کو کمتر نا جانیے۔ اپنی ثقافت، علاقائی زبانوں، خاندانی نظام اور پاکستانیت پر فخر کیجیے۔