میں آج بھی پھینکے ہوئے پیسے نہیں اٹھاتا، میرے پاس ماں ہے، آج خوش تو بہت ہوں گے اور نجانے ایسے ہی کتنے مکالمات جب کوئی ادا کرے تو ذہن فوراً 1975میں آئی کلاسک فلم ’دیوار‘ کی یاد دلا دیتی ہے۔ ایک ایسا شاہکار جس نے بھارتی فلموں کا رخ تبدیل کردیا۔ جس نے امیتابھ بچن کی تقدیر اُس ڈگر پر لا کر کھڑی کردی،جس کے ہر موڑ پر صرف کامیابی اور کامرانی تھی۔ سلیم جاوید کے لکھے ہوئے اسکرپٹ اور اسکرین پلے اور ہدایتکار یش چوپڑہ کی ’دیوار‘ نے سنیما گھروں میں طوفان برپا کردیا۔ امیتابھ بچن کو ’اینگری ینگ مین‘ کا ایسا خطاب دیا جس کے سہارے انہوں نے طویل عرصے تک بالی وڈ کی سلطنت پر اپنی حکمرانی قائم رکھی۔
’دیوار‘ کی مقبولیت اور پسندیدگی کا اندازہ یوں لگایا جاسکتا ہے کہ اسے بھارت کی مختلف علاقائی زبانوں میں بھی تیار کی گیا ہے۔ یہی نہیں اسی کہانی کے گرد بالی وڈ میں بے شمار فلمیں تخلیق کی گئیں۔ جن کا موضوع یہی تھا کہ معاشرتی اور سماجی تفریق اور ناانصافیوں سے تنگ ہیرو، جرم کی راہ کا انتخاب کرتا ہے لیکن انجام اس کی اپنی بربادی بن جاتا ہے۔ قانون کی گرفت سے نکلنا اس کے لیے ناممکن ہوجاتا ہے۔ تب اسے احساس ہوتا ہے کہ ’شارٹ کٹ‘ اس سے زندگی کی ہر خوشی اور رشتہ چھین چکا ہے۔
’دیوار‘ کو صرف بھارت میں ہی نہیں بلکہ سرحدوں کے پار بھی پذیرائی ملی۔ جبھی تو 1978 میں ایران میں Koose-ye Jonoob کے نام سے فارسی زبان میں ’دیوار‘ کی کہانی سے مشابہت رکھتی فلم سنیما گھروں میں سجائی گئی۔ قصہ صرف یہیں ختم نہیں ہوا۔۔ اگلے ہی سال یعنی 1979میں ہانگ کانگ میں کانٹونس اور مینڈرآئن زبانوں (چینی زبان کی قسمیں) میں ’دیوار‘ کا ہانگ کانگ ورژن ’دی برادرز‘ کو پیش کیا گیا۔
ہدایتکار ہوا شان کی اس تخلیق میں امیتابھ بچن والا کردار ہانگ کانگ کے مارشل آرٹ کے سپر اسٹار ٹونی لیو نے ادا کیا جبکہ ششی کپور کی طرح ڈینی لی پولیس انسپکٹر کے روپ میں جلوہ گر ہوئے۔ماں کے کردار کے لیے نم ہونگ کا انتخاب کیا گیا۔ ہانگ کانگ کی روایتی فلموں کے برعکس اس ’دی برادرز‘ میں ایکشن کے ساتھ ساتھ جذباتی مناظر بھی تھے کیونکہ پوری فلم جو ’دیوار‘ کی چھاپی گئی تھی۔ دونوں بھائیوں کے درمیان تناؤ اور جذباتی مکالمات اور پھر ماں کی ممتا میں سلگتی صدائیں بھی فلم کا خاصہ رہیں۔ پروڈیوسر شاہ برادرز کی ’دی برادرز‘ نے باکس آفس پر زبردست کاروبار کیا۔ ’دیوار‘ کی اس مقبولیت کے پیش نظر اس کی ترکی میں بھی کاپی کی گئی اور Acilarin çocugu کے نام سے 1985 میں پیش کیا گیا ۔
اگر یہ کہا جائے تو غلط بھی نہ ہوگا کہ ہانگ کانگ سنیما انڈسٹری نے ’دیوار‘ کی کامیابی کا کچھ ضرورت سے زیادہ اثر لیا۔ جبھی ’دی برادرز‘ کے بعد بھی اسی موضوع پر تھوڑی بہت تبدیلی کے ساتھ فلم ساز اور ہدایتکار ہاتھ صاف کرتے رہے۔ 1989میں ہانگ کانگ کی دو فلمیں سنیما گھروں کی زینت بنیں اور ان دونوں کی کہانی ’دیوار سے ‘ ملتی جلتی رہی۔ جولائی 1989میں ریلیز ہونے والی ’دی کلر‘ بھی ’دیوار‘ کا چربہ ثابت ہوئی اور اس کے ایک ماہ بعد آنے والی فلم ’آ بیٹر ٹومارو‘کی کہانی بھی کچھ ایسی ہی تھی۔ اب دلچسپ بات یہ ہے کہ اسی فلم سے متاثر ہو کر بھیڑ چال کا شکار بھارتی ہدایتکار سنجے گپتا نے 1994میں ’آتش‘ بنائی اور یہ جاننے کی بھی کوشش نہیں کی کہ درحقیقت یہ مووی ’دیوار‘ کی کہانی سے مماثلت رکھتی تھی۔ بات کی جائے پاکستان کی تو یہاں بھی 90کی دہائی میں جرم اور سزا کے گرد گھومتی کئی ایسی داستان پردہ سیمیں پر جلوہ افروز ہوئیں جن میں دو بھائیوں کے درمیان نیکی اور بدی کی جنگ چھڑچکی ہے۔ جن کا ایک ہیرو، ظلم و جبر اور زیادتی سے دل برداشتہ ہو کر گناہوں کی دلدل میں دھنستا چلا جاتا ہے۔