برصغیر پاک وہند کے بہت سے اولیا اپنا نسب وسطی ایشیا سے ملاتے ہیں۔ ایسے مبلغین جو شاہ محمود غزنوی کے حملے کے ساتھ 'کفر' کے گھر انڈین برصغیر میں آئے۔ بندوق بردار ظالم فوجوں کے برعکس یہ صوفیا امن اور بھائی چارے کا سبق اپنے ماننے والوں کے لئے لے کر آئے۔ انہوں نے اپنی رواداری اور سب کو ساتھ لے کر چلنے کی سوچ مختلف گروہوں کو ایک دوسرے کے قریب کیا۔ ان کے نزدیک خدا تک پہنچنے کے کئی راستے ہیں، کوئی ایک مخصوص راہ نہیں۔ اس صلح کل کی سوچ، صوفیا اور وحدت الوجود کے نظریات نے ہندوستان میں جڑ پکڑی، خصوصاً پنجاب اور سندھ میں۔
لاہور کے کنٹونمنٹ کے علاقے میں، نہر اور ریلوے لائن کے اس پار، حضرت میاں میرؒ آرام کر رہے ہیں۔ ایک ایسے ولی جن کا احترام مسلمانوں، سکھوں اور ہندوؤں میں یکساں ہے۔ ان کے لئے ان کے مریدین کے دل میں خوف نہیں، محض محبت ہے۔
حضرت میاں میرؒ کی زندگی پر کتب تو بہت سی لکھی گئی ہیں لیکن ایک ان کے اپنے مرید مغل شہزادہ داراشکوہ نے بھی لکھی۔ اس کتاب کا نام ہے 'سکینۃ الاولیا'۔ ایک اور بہترین کتاب گیانگی برہمن سنگھ برہمن کی 'Hazrat Mian Mir and the Sufi Tradition' ہے۔
حضرت میاں میرؒ کا اصل نام میر محمد تھا۔ آپ کی پیدائش 1550 عیسوی میں سندھ کے ایک قصبے سیوستان یا سیستان (شاید شیوستان نام کو کرپٹ کیا گیا ہو) میں ہوئی۔ یہ شہر اب موجود نہیں۔ یہ بھکر اور ٹھٹھہ کے درمیان کسی جگہ پر موجود تھا۔ میاں میرؒ سندھی، پنجابی اور فارسی تینوں زبانوں میں بات کیا کرتے تھے۔ بلکہ شہنشاہ جہانگیر انہیں اپنی تزک جہانگیری میں سندھی ہی کہتے ہیں۔ میاں میرؒ صرف 7 برس کے تھے جب ان کے انتہائی مذہبی والد کا انتقال ہوا۔ ان کی والدہ جو کہ خود بھی ایک تعلیم یافتہ خاتون تھیں نے اپنے بیٹے کی تعلیم کی ذمہ داری اٹھائی۔ کم عمری میں ہی میاں میرؒ نے مذہبی تعلیم اور تصوف میں دلچسپی لینا شروع کر دی تھی۔ اسلامی مضامین میں ان کی گھر پر تعلیم کچھ سالوں تک جاری رہی۔
25 سال کی عمر میں انہوں نے لاہور کا قصد کیا اور پھر چند مختصر ادوار کے علاوہ یہیں رہے۔ 1635 میں اپنی وفات کے وقت تک وہ دھرم پورہ ہی میں رہے۔ ایک سال کے لئے یہ سرہند بھی گئے اور چند قدرے مختصر دورے امرتسر کے بھی رہے۔ ان کا انتقال 85 برس کی عمر میں ہوا اور انہیں ایک قبرستان میں دفنا دیا گیا جو کہ اس وقت شہر سے باہر ہی سمجھا جاتا تھا۔ کچھ تجاوزات ہیں مگر یہ قبرستان آج بھی وہیں موجود ہے۔ ان کے مزار پر ان کے معتقدین کا رش رہتا ہے۔
داراشکوہ کے مطابق میاں میرؒ کا رنگ گندمی اور پیشانی چوڑی تھی۔ ان کی جسامت متوازن تھی اور داڑھی چھوٹی رکھتے تھے۔ اپنے آخری ایام میں وہ بیٹھ کر نماز پڑھا کرتے۔ بات کم کرتے تھے۔
ان کا لباس بہت سادہ تھا جو دوسرے 'علما' کے بارے میں نہیں کہا جا سکتا۔ انہوں نے کبھی مہنگا لباس زیب تن نہ کیا۔ وہ ایک پگڑی، دھوتی اور قمیض پہنا کرتے۔ وہ اپنے کپڑے خود دھوتے اور اپنے مریدین کو بھی یہی تلقین کرتے۔ ان کا مکان سادہ تھا اور اس میں پٹ سن کی ایک چٹائی بچھی رہتی۔ انہیں دنیاوی آسائشوں میں کوئی دلچسپی نہ تھی۔ وہ دیگر اولیا کے شاہانہ طرزِ زندگی پر حیران ہوتے، خصوصاً شیخ بہاء الدین زکریا ملتانیؒ کے۔
گیانی برہما لکھتے ہیں، "ان کا لباس بہت ہی سادہ تھا۔ وہ کھدر کا سادہ کرتا پہنا کرتے، تہمد باندھتے اور کھدر ہی کی پگڑی باندھا کرتے تھے۔ جب یہ میلے دکھنے لگتے تو وہ ان کی صفائی میں کسی کی مدد نہ لیتے۔ وہ راوی دریا میں انہیں خود اپنے ہاتھوں سے دھوتے جو کہ ان کے گھر سے قریب ہی بہتا تھا۔ وہ ہمیشہ جسم کی صفائی اور پاکی پر زور دیا کرتے"۔
میاں میرؒ یا تو عبادات میں مصروف رہتے یا اپنے مریدین سے ملاقات کرتے۔ داراشکوہ لکھتے ہیں کہ میاں میرؒ سوائے فرض نمازوں، سنتوں اور تہجد کے کوئی نماز نہ پڑھتے۔ اسی طرح وہ روزے بھی صرف رمضان کے رکھا کرتے۔ انہوں نے کبھی اپنے ہاتھ میں تسبیح نہیں تھامی۔ وہ انسانوں کو انسان ہی مانتے، کبھی ان کے دین کی بنیاد پر ان کا بارے میں کوئی رائے قائم نہ کرتے۔ نہ ہی انہیں مسلمان بنانے کی کوشش کرتے۔
انہیں موسیقی پسند تھی۔ وہ ہندوستانی راگوں کو سمجھتے تھے اور انہیں سننا پسند کرتے تھے۔ کوئی قوال آ جاتا تو اس کا گانا سنتے۔ کوئی موسیقی زیادہ ہی پسند آ جائے تو وجد میں آ جاتے اور ان کا چہرہ دمکنے لگتا۔
انہوں نے دنیاوی طاقتوروں کی دوستی تیاگ دی۔ البتہ یہ عام شہریوں کی طرح ان کے پاس ضرور آتے۔ لیکن یہ کبھی کئی دنیاوی تحائف اور ہدیے وصول نہ کرتے، گو کہ بہت سے امرا ان کے مرید تھے۔ وہ ایک سادہ زندگی گزارتے اور ان کی ضروریات بہت ہی کم تھیں۔ ایک بار انہوں نے اپنے ایک مرید وزیر کو کہا "تف ہے اس لمحے پر جس میں مجھے تیرا خیال آ جائے"۔ تمام صوفیا کی طرح میاں میرؒ بھی سادگی اور عاجزی کا درس دیتے۔
1619 میں جب میاں میرؒ 70 برس کے تھے تو شہنشاہ جہانگیر نے ان سے ایک ملاقات کے لئے مخلصانہ خواہش کا اظہار کیا۔ جہانگیر اولیا کا بہت احترام کیا کرتا اور اس نے میاں میرؒ کے بارے میں سن رکھا تھا جن کے لئے وہ تزکِ جہانگیری میں لکھتا ہے کہ وہ 'انتہائی فصیح، نیک، سادگی پسند اور دھیمے مزاج کے شخص، فقر کے بادشاہ ہیں جو خدا پر تکیہ کیے ایک کونے میں بیٹھے ہیں، جو اپنی فقیری میں امیر ہیں اور دنیا سے بے نیاز"۔
لاہور آنا اس وقت شہنشاہ کے لئے ممکن نہ تھا اور اسی لئے اس نے میاں میرؒ سے درخواست کی کہ وہ کالانور میں اس سے ملاقات کر لیں۔ یہ گورداسپور کو نارووال سے ملانے والی ایک سڑک تھی جس پر شہشاہ نے دلی سے کشمیر جاتے ہوئے پڑاؤ کر رکھا تھا۔
اسی شہر میں 1556 میں اس کے باپ اکبرِ اعظم کی 14 سال کی عمر میں تاج پوشی ہوئی تھی، میاں میرؒ کی پیدائش کے 6 برس بعد۔ جہانگیر حضرت میاں میرؒ کی حق گوئی، مذہبی علم اور ان کی شاندار شخصیت سے بہت متاثر تھا۔ شہنشاہ نے کہا کہ وہ ولی اللہ کی خدمت میں کوئی نذرانہ پیش کرنا چاہتا ہے لیکن ان کی ہستی اس سے بہت بلند ہے۔ اس لئے اس نے ان کی خدمت میں محض ایک سفید ہرن کی کھال کی جائے نماز پیش کی۔ یہ تھی اس ولی اللہ کی شان اور اس کی جاہ وحشمت۔
جہانگیر یقیناً میاں میرؒ اور گورو ارجن دیو کے درمیان دوستی سے لاعلم نہیں تھا۔ گورو ارجن دیو کو اس نے اپنے دورِ اقتدار کی ابتدا میں ہی اذیت دے دے کر قتل کروایا تھا لیکن اس سے میاں میرؒ کے لئے اس کے احترام میں کوئی کمی نہ آئی تھی۔
آج پنجاب میں بسنے والے تمام مذاہب کے لوگ میاں میرؒ کے زندگی بھر تمام مذاہب کے ماننے والوں کو اکٹھا کرنے کی کوششوں کے باعث ان کا بے حد احترام کرتے ہیں۔ پردہ فرمانے کے چار سو سال بعد بھی تمام مذاہب سے تعلق رکھنے والوں میں ان کے لئے عقیدت ہے۔ ان کی حیات اور ان کی کاوشوں کی آج ایک خصوصی اہمیت ہے اور ان کے پیغام کو پھیلانے کی آج اشد ضرورت ہے کہ جب مذہب کی بنیاد پر نفرت کا پرچار ہو رہا ہے اور تعصب، شدت پسندی، تشدد اور نفرت کا چلن عام ہے۔ ان کا گھر تمام مذاہب کے ماننے والوں کو قریب لاتا ہے۔
حضرت میاں میرؒ نے اپنی زندگی میں وہ پرآشوب دور دیکھا کہ جب سکھ مت ایک پرامن اور بقائے باہمی پر یقین رکھنے والے مذہب سے ایک جنگجوانہ سمت میں جا نکلا۔ ان کی بے شمار عملی کوششوں کے باوجود سکھوں، مغلوں اور نتیجتاً سکھوں اور مسلمانوں کے درمیان خلیج وسیع ہوتی چلی گئی۔
سکھ مت میں حضرت میاں میرؒ سب سے قابلِ احترام مسلم صوفی ہیں۔ وہ پانچویں گورو ارجن دیو جی کے بہت قریبی سمجھے جاتے ہیں جو کہ میاں میرؒ سے عمر میں 13 برس چھوٹے تھے۔
1579 سے 1582 تک گورو جی کے لاہور میں تین سالہ قیام کے دوران دونوں میں قریبی رابطہ رہا۔ دونوں مذہبی شخصیات تھیں اور دونوں ہی وحدت الوجود کے قائل۔ 1588 میں گورو ارجن دیو نے امرتسر کے عین وسط میں ایک گورودوارا بنانے کا فیصلہ کیا جس کے گرد ہی یہ شہر آباد ہوا۔
یہ گورودوارا ہرمندر صاحب کہلاتا ہے۔ گورو جی نے اس مندر کا سنگِ بنیاد رکھنے کے لئے میاں میرؒ کو دعوت دی۔ یہی وجہ ہے کہ میاں میرؒ کا نام پنجاب کے دو بڑے مذاہب کے درمیان ایک امن کے پیغمبر کے طور پر امر ہو گیا۔ گورو ارجن دیو کی شہادت کے بعد ان کے بیٹے اور چھٹے سکھ گورو، گورو ہرگوبند میاں میرؒ کا آشیرباد لینے لاہور تشریف لائے۔ کہا جاتا ہے کہ نویں گورو، تیغ بہادر، کو بھی بچپن میں میاں میرؒ سے ملنے کا اتفاق ہوا۔ گیانی برہمن لکھتے ہیں کہ ان کے مزار کی مرمت کے لئے مہاراجہ رنجیت سنگھ نے 500 روپے خرچ کیے تھے۔
داراشکوہ نے شہنشاہ شاہ جہاں کے میاں میرؒ کے پاس دو حاضریوں کا احوال بیان کیا ہے۔ صوفی نے بادشاہ کو اپنی رعایا کا خیال رکھنے کی نصیحت کی۔ انہوں نے سمجھایا کہ رعایا خوش ہوگی تو فوج بھی ساتھ رہے گی اور خزانہ بھی بھرا رہے گا۔ دوسری ملاقات میں، بادشاہ نے ان سے ذہنی سکون کا طریقہ پوچھا۔ میاں میرؒ نے نصیحت کی کہ نیکی کے کام کرو، اور نمازوں میں خدا کی خوشنودی کے سوا کچھ نہ مانگا کرو۔
جہانگیر اور میاں میرؒ کے درمیان بھی کچھ اور ملاقاتوں کے تذکرے مختلف کتابوں اور آن لائن مضامین میں ملتے ہیں لیکن ان کی تاریخی تحقیق ممکن نہیں ہے۔
شہزادہ داراشکوہ انہیں پیار سے 'میاں جیو' کہتے، ان سے محبت کرتے اور انہیں اپنا مرشد مانتے تھے۔ وہ میاں میرؒ سے والہانہ عقیدت رکھتے تھے، ان سے اکثر ملتے، مختلف موضوعات پر مباحث کرتے اور ان کے نیازمند رہتے۔
داراشکوہ کی بیوی نادرہ بیگم بھی میاں میر کی مرید تھیں۔ جب بلوچستان میں انتہائی ابتلا کی حالت میں انتقال ہوا تو انہوں نے وصیت کی کہ انہیں اپنے پیر کے مزار کے قریب دفنایا جائے۔ ان کا سدہ سا مزار میاں میرؒ کے مزار کے ساتھ ہی موجود ہے۔
حضرت میاں میر ہر دور کے ولی ہیں۔ وہ محبت کی طاقت کو سمجھتے تھے۔ اس دور کے بادشاہوں، صوبیداروں نے رواداری اور محبت سے کام لیا ہوتا تو شاید خطہ پنجاب کی تاریخ زیادہ پرامن اور کچھ کم سرخ ہوتی۔
پرویز محمود کا یہ مضمون The Friday Times میں شائع ہوا جسے نیا دور اردو قارئین کے لئے ترجمہ کیا گیا ہے۔