20 مارچ کو سپریم کورٹ کے جج کو لکھے گئے خط میں سابق وزیراعظم نے دعویٰ کیا کہ میرے گھر پر پنجاب پولیس نے چھاپہ مارا جب وہ توشہ خانہ کیس کی سماعت کے لیے اسلام آباد جوڈیشل کمپلیکس میں تھے۔ اس بات کا ثبوت تھا کہ اسنہیں دوبارہ قتل کرنے کی سازش تیار تھی۔
عمران خان نے اپنے خط میں یہ بھی کہا کہ وہ مسلسل متعدد عدالتوں میں پیشی کے لیے عدالتوں سے ویڈیو لنک کی سہولت کی درخواست کر رہے ہیں کیونکہ ان کی “جان کو خطرہ ہے”۔
انہوں نے مزید کہا کہ مجھے کوئی سیکیورٹی فراہم نہیں کی گئی اور وزیر آباد میں میرے خلاف پہلے ہی ایک قاتلانہ حملے کی کوشش کی جاچکی ہے۔ میں جب بھی عدالت میں پیش ہونا پڑا۔ میں اپنی جان کو خطرے میں ڈالتا رہا ہوں۔
عمران خان نے اپنے خط میں یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے متعدد عدالتوں کی سماعتوں کے لیے متعدد بار عدالتوں سے ویڈیو لنک کی اہلیت طلب کی ہے کیونکہ ان کی "جان کو خطرہ ہے"۔ اپنے اوپر درج 90 سے زائد مقدمات کے سبب ویڈیو لنک کے ذریعے مقدمات کی کارروائی کی درخواست کر رہا ہوں۔ حکومت میری سکیورٹی کے بارے میں سنجیدہ نہیں۔ حفاظت کیلئے ضروری انتظامات سے گریز کر رہی ہے۔ مجھ پر ایک قاتلانہ حملہ ہو چکا ہے جس کے سبب عدالت میں پیش ہونا خطرے سے خالی نہیں۔
انہوں نے خط میں مزید لکھا کہ اسلام آباد کے جوڈیشل کمپلیکس میں پیشی کے موقع پر تمام راستوں کو بلاک کر دیا گیا، حکومت نے میری عدالت حاضری کے موقع پر عدم پیشی جیسی صورتحال پیدا کرنے کی کوشش کی۔
سابق وزیر اعظم نے یہ بھی لکھا کہ جب ہم اسلام آباد پہنچے اور جوڈیشل کمپلیکس کی طرف بڑھ رہے تھے تو ہمیں کمپلیکس میں میری آمد کو روکنے کے لیے چاروں طرف سے کنٹینرز میں پھنسا دیا گیا اور مجسٹریٹ کے سامنے جان بوجھ کر جھوٹی صورتحال پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔ اظہارِ یکجہتی کیلئے آنے والے لوگوں کو اشتعال دلایا گیا۔ پولیس اور رینجرز نے کارکنان اور قائدین پر آنسو گیس، لاٹھیوں کا بے دریغ استعمال کیا۔
عمران خان نے خط میں الزام عائد کیا کہ عدالتی کمپلیکس کی چھت پر تعینات پولیس اہلکاروں نے نہتے لوگوں پر پتھر برسائے۔ پولیس کی وحشت و سنگ باری کی ویڈیوز موجود ہیں۔ عدالت کے راستے میں پولیس نے میرے ساتھ چلنے والے شہریوں کو بلااشتعال تشدد کا نشانہ بنایا۔ مجھے راستے میں ہی احساس ہوگیا کہ میری گرفتاری نہیں بلکہ قتل مقصود تھا۔
انہوں نے لکھا کہ ہمارے وکلاء کو مار پیٹ کر کے باہر نکال دیا گیا مگر کم و بیش 20 نامعلوم افراد کمپلیکس میں موجود رہے۔ ان لوگوں نے وردیاں پہن رکھی تھیں نہ ہی کوئی شناخت ظاہر کر رکھی تھی۔ یقینی طور پر انہیں میرا خون کرنے کیلئے وہاں کھڑا کیا گیا تھا مگر اللہ نے میری حفاظت کی۔
عمران خان نے کہا کہ اسلام آباد کے راستے میں تھا جب پولیس نے ہائیکورٹ کی حکم عدولی کرتے ہوئے میری رہائشگاہ پر دھاوا بولا۔ پولیس کے حملے کے وقت میری اہلیہ چند گھریلو ملازمین کے ہمراہ گھر میں اکیلی تھیں۔