کرنل ریٹائرڈ افتخار اعوان کو لاہور کی احتساب عدالت کی جانب سے سروسز کوآپریٹو کریڈٹ کارپوریشن لمیٹڈ میں 2002 میں مبینہ مالی بے ضابطگیوں کے باعث 14 سال قید اور 75 کروڑ روپے جرمانے کی سزا سنائی گئی تھی۔
مرحوم کے وکیل نے عدالت میں کہا، یہ اپنی نوعیت کا پہلا کیس ہے جس میں عدالت نے مجرم کی موت کے بارے میں آگاہ ہونے کے باوجود طویل دلائل سنے کیوں کہ مرحوم کے قانونی وارثین میرٹ کی بنیاد پر اس مقدمے کا خاتمہ چاہتے تھے۔
واضح رہے کہ اس سے قبل بھی بعض مقدمات میں مجرموں کو ان کی وفات کے بعد بری کیا جا چکا ہے۔
واضح رہے کہ افتخار اعوان نے احتساب عدالت کا فیصلہ لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا تھا جس نے احتساب عدالت کا فیصلہ برقرار رکھا لیکن 14 سال کی سزا کم کر کے پانچ برس کر دی۔
بعدازاں، ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف 2009 میں سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی گئی جہاں یہ معاملہ کئی برسوں تک زیرالتوا رہا اور بالآخر 22 اپریل 2015 کو افتخار اعوان چل بسے۔
افتخار اعوان کے قانونی ورثا نے سپریم کورٹ میں اس کیس کا فریق بننے سمیت، اس کی میرٹ پر سماعت کرنے کی اپیل دائر کی تھی تاکہ مرحوم کو دی جانے والی اس سزا کا خاتمہ ہو سکے جو ان کے مطابق ایماندار اور ایک اصول پسند فوجی افسر تھے۔
قومی احتساب بیورو کے پراسیکیوٹر جنرل جہانزیب بھروانہ سے قابل قبول شواہد پیش کرنے کے لیے کہا گیا جس میں وہ ناکام رہے۔ انہوں نے مقدمے میں دلائل تو دیے لیکن الزامات سے متعلق کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کر سکے جس پر سپریم کورٹ آف پاکستان نے مرحوم افتخار اعوان کی سزا معطل کرتے ہوئے ان پر عائد تمام الزامات ختم کر دیے اور جرمانہ منسوخ کرتے ہوئے اسے غیر قانونی قرار دے دیا۔