باقی سفر کی تفصیلات میں جائے بغیر ایک واقعے کا ذکر کرتا چلوں کہ جب ہم یخ تنگی چیک پوسٹ پہنچے تو وہاں حد سے زیادہ سختی تھی اور گاڑیوں اور عوام کی لمبی قطاریں کھڑی تھی۔ تمام لوگوں کو گاڑیوں سے اُتار کر چیک پوسٹ سے کچھ دور قطار میں کھڑا کر دیا جاتا تھا اور جب تلاشی کی باری آتی تھی تو سب اپنے دامن اُٹھا کر یعنی اپنا پیٹ دکھا کر فوجی جوانوں کے پاس تلاشی دینے جاتے تھے تاکہ پتہ چلے کہ کسی نے خودکش جیکٹ تو نہیں پہنا۔ ہم اُس تفصیل میں نہیں جاتے خودکش حملہ اور کِس طرح آتا تھا اور اُن کو روکنے کا کوئی اصل منصوبہ تھا یا نہیں اور ہم اِس تفصیل میں بھی نہیں جاتے کہ اِن سب کا اصل میں فائدہ بھی تھا یا صرف عوام کی عزت نفس مجروح کرنے منصوبہ تھا۔
ایسی ہزاروں داستانیں سوات اور سابقہ فاٹا کے لوگوں کے ذہنوں پر نقش ہیں۔ اگر کسی کو اِس بات کا یقین نہ آئے تو انٹرنیٹ اور خاص کر سوشل میڈیا ویب سائٹس پر آپ کو ایسی بہت سی تصاویر مل جائیں گی۔ مرد تو مرد، عورتوں کی بھی تصوایر مِل جائیں گی جِن کو چیک پوسٹس پر خوار کیا جاتا رہا۔
اب معاملہ یہ ہے کہ ہمیں یعنی سوات اور سابقہ فاٹا کے لوگوں کو پہلے دہشت گردی اور پھر دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر تشدد اور ذلت کا نشانہ بنایا گیا لیکن ہم نے یا تو وطن کی خاطر سب کچھ برداشت کیا اور یا کمزوری اور ڈر کی وجہ سے کچھ نہ کہہ سکے۔ اب جب کرنل کی بیوی کا واقعہ سامنے آیا توسوات اور سابقہ فاٹا کے لوگوں نے یہ کہنا شروع کیا کہ ہم اور ہماری عورتوں نے گھنٹوں چیک پوسٹوں پر گزارے ہیں اور وہ بھی اکثر فضول میں لیکن ہم نے ایسی حرکات نہیں کی جب کہ مبینہ طور پر ایک کرنل کی بیوی کو ایک قومی شاہراہ پر بہت سارے لوگوں کے ساتھ روکا گیا تو اُس نے ایسا واویلہ مچایا کہ وہ قومی مسئلہ بن گیا اور چند گھنٹوں میں پورا ملک اُس کے بارے میں بولنے لگا۔
یہاں پر لوگوں کو احساس ہو جاتا ہے کہ اِس ملک میں کیا ہو رہا ہے اور کیسے اپنی زمین پر رہنے والوں کو غیر سمجھا جاتا ہے اور اُن کے ساتھ دشمنوں اور غلاموں والا سلوک کیا جاتا ہے جب کہ کہیں اور سے آنے والے لوگ اُس علاقے کے بے تاج بادشاہ کی طرح رہتے ہیں۔ دوسری طرف ایک کرنل کی بیوی صوبیدار کو گالیاں دے کر قانون کو اپنے گاڑی کے پہیوں کے نیچے روند کر چلی جاتی ہے اور قانوں دیکھتا رہ جاتا ہے۔
اِس بحث کے علاوہ کرنل کی بیوی کے معاملے میں بہت ساری باتیں آپ نے سُنی ہوں گی لیکن میرے مطابق جو باتیں خطرناک تھیں وہ یہ تھیں:
سب سے پہلی بات یہ کہ اے آر وائے نیوز نے خبر تو چلائی لیکن خبر چلاتے وقت ’ کرنل کی بیوی‘ کھنے کے بجائے ’ایک بااثر شخص کی بیوی‘ لکھا۔ اِس سے اے آر وائے اور باقی میڈیا کی حالت اور مجبوریوں کا اچھی طرح اندازہ ہو جاتا ہے۔
دوسری بات یہ کہ ویڈیو وائرل ہونے کے بعد فوج کی حمایت کرنے والے لوگوں کےمختلف گروہ تھے۔ ایک گروہ نے کہا کہ کرنل کی بیوی کو طلاق ہو چکی ہے، اس لئے وہ کرنل اور فوج کو بدنام کر رہی ہے۔ دوسرے نے کہا کہ آرمی چیف نے تحقیقات کا حکم دیا ہے (جِس کا کوئی ثبوت نہیں تھا) تو کسی نے یہاں تک کہہ دیا کہ لیلۃ القدر کی رات کو ہمیں عبادات سے محروم کرنے کی سازش ہے۔ اور بھی مختلف قسم کی باتیں کی گئیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ سارے ٹرولز ہیں اور بغیر کسی معلومات کے محکمے کا دفاع کرنے والے ہیں، خواہ کتنا بھی سفید جھوٹ بولا جائے۔
یاد رہے کہ اِن میں کچھ نامی گرامی صحافی بھی تھے۔ ہاں کچھ نے یہ بھی کہا کسی ایک افسر کی بیوی کے غلط کام پر افسر اور اُس کے پورے محکمے کو تنقید کانشانہ نہیں بنایا جا سکتا۔ یہ بات معقول ہے لیکن اِس سے پہلے یہ دیکھنا پڑے گا کہ کیا یہ رویہ محکمے کے شایانِ شان ہے؟
تیسری بات یہ ہے کہ جب واقعے کو عوام کی جانب سے زیادہ توجہ ملی اور کرنل کی بیوی اور فوج کا حد سے زیادہ مذاق اُڑنے لگا تو ایک اور پتہ کھیلا گیا جِس میں فوج کے شہداء کی تصویریں، اُن کی ماؤں کی تصویریں، اُن کی زخمی حالت میں تصویریں، اُن کے خراب کھانے کی تصویریں وغیرہ شیئر کر کے طعنے دینے شروع ہوئے تاکہ واقعے پر لوگوں کے ردِعمل کو کمزور کیا جا سکے۔
یاد رہے کہ چیک پوسٹوں پر عوام کے ساتھ ناروا سلوک رکھے جانے کی وجہ سے پشتون تحفظ مومنٹ جیسے تحریک وجود میں آئی ہے۔ تحریک صرف اور صرف چیک پوسٹوں پر ناروا سلوک کی وجہ سے وجود میں نہیں آئی لیکن اُس کے پانچ بڑے مطالبات میں ایک یہ مطالبہ بھی تھا کہ چیک پوسٹوں پر عوام کے ساتھ نارواسلوک بند کیا جائے۔ اگر ایک طرف عوام کے ساتھ ایسا سلوک ہو اور دوسری طرف کسی افسر کی بیوی قانون توڑے گی اور قانون کے رکھوالے کو گالیاں دے گی تو عوام کے ذہنوں میں مختلف شکوک و شبہات پیدا ہوں گے۔
اِس طویل بحث کا حاصل یہی ہے کہ انسان کے ہر روئیں میں اُس کی ذاتی جبلت شامل ہوتی ہے لیکن اگر اوپر سے آپ کو مدد نہ مِلے تو مجال ہے کہ آپ ایسی حرکت کریں۔