اس بات پر بحث و مباحثہ جاری ہے کہ چونکہ حکومت چھوڑنے کا مطلب پاکستان کا نقصان ہوگا لہٰذا حکومت تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں بیٹھ کر متفقہ طور پر فیصلے کرے تاکہ ملکی معیشت بحال ہو سکے جو پہلے ہی دیوالیہ کی طرف بڑھ رہی ہے۔ ملک کی معاشی صورت کی وجہ سے اسٹیک ہولڈرز بھی پریشان ہیں۔
جیو نیوز کے مطابق سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی موجودہ سیاسی اور معاشی مسائل کے حل کیلئے قومی سلامتی کمیٹی کی بنیاد پر فیصلے پر اصرار کر رہے ہیں۔
اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اس صورتحال پر بھی بات ہو چکی ہے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات میں حکومت کی جانب سے مسائل کے حوالے سے مجوزہ حل پر حوصلہ افزا جواب نہ ملنے کی صورت میں قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بلانے پر بھی مشورہ کیا جا رہا ہے۔
خیال کیا جاتا ہے کہ آئی ایم ایف کو نگراں حکومت کی بجائے موجودہ حکومت کے ذریعے ہی معاملات میں شامل کیا جانا چاہیے۔ کچھ سرکردہ سیاسی رہنماؤں کو خدشہ ہے کہ نگراں حکومت سے توجہ کرنا غلط ثابت ہو سکتا ہے اور معیشت کے لیے اچھا ہونے کی بجائے تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔
اس بات پر غور کیا جا رہا ہے کہ حکومت یکطرفہ طور پر معاشی فیصلے نہیں کر سکتی جن میں مشکل فیصلے بھی شامل ہیں کیونکہ ان فیصلوں کی بھاری سیاسی قیمت چکانا پڑے گی۔
مذاکرات کا نتیجہ مثبت آنے کی صورت میں حکومت برقرار رہے گی، چاہے پھر الیکشن سال کے آخر میں ہی کیوں نہ کرانا پڑیں۔ اگر مذاکرات کا نتیجہ اچھا نہ رہا تو ذرائع دعویٰ کرتے ہیں کہ نون لیگ اتحادیوں کے ساتھ رجوع کرکے حکومت چھوڑنے کا فیصلہ کرے گی۔ اتحادی حتمی فیصلہ کریں گے۔