لیکن افسوس شہرا قتدار پر کہ جہاں بڑی کوششوں کے بعد بھی، یہ چھوٹی سی نیکی کم ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔
غلط مت سمجھیے، ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ اسلام آباد کے باسی نیکیاں کرنے میں بخیل ہیں۔ وہ بے چارے تو صرف مجبور ہیں۔ ہم دراصل بات کررہے ہیں، اسلام آباد کے ’ٹوٹوں‘ (Toyota) کی۔
اب پھر درخواست ہے کہ ہمیں غلط مت سمجھیے، ہم کسی فلم کے اخلاق باختہ مناظر کی نہیں، اسلام آباد کی سڑکوں پر فراٹے بھرنے والی مسافر ویگنوں کی بات کر رہے ہیں، جنہیں جڑواں شہروں کے بھولے عوام عرف عام میں ٹوٹے کہتے ہیں۔
اگر آپ راولپنڈی اسلام آباد میں رہتے ہیں اور ویگن میں سفر کرتے ہیں تو پہلے تو آپ کی خوش نصیبی کہ آپ کو سیٹ مل جائے اور اگر نہیں ملتی تو حالتِ رکوع میں ہی سفر تمام کرنے کو تیار ہو جائیں۔ اب آپ بیمار ہیں، بزرگ ہیں یا محض سیٹ پر بیٹھ کر منزل پر پہنچنے کے خواہشمند، کوئی فرق نہیں پڑتا۔ سفر تو ایسے ہی کرنا ہوگا اس وقت تک کہ آپ کو کوئی سیٹ نہ مل جائے۔
اس دوران آپ کی بزرگی کا احترام کر کے یا بیماری دیکھ کر یا کسی بھی وجہ سے اگر کوئی مسافر آپ کو اپنی سیٹ پیش کرنا بھی چاہے تو یہ اپنے آپ میں ایک اذیت ناک مرحلہ ہوتا ہے۔ اس شخص کے اپنے لئے بھی اور دوسرے مسافروں کے لئے بھی۔ گویا اس حوالے سے شہراقتدار کے باسی بڑے بدنصیب ہیں کہ چھوٹی سی نیکی کر کے ثواب کمانے تک سے محروم ہیں۔
جڑواں شہروں کے باسیوں کی یہ بے بسی اور بے چارگی ہم سے تو نہیں دیکھی جاتی۔ اس لئے اربابِ اختیار، خصوصاً تبدیلی سرکار، سے دست بستہ التجا ہے کہ مسافروں کی ان ٹوٹوں سے جان چھڑائیں اور دونوں شہروں کے روٹس پر میٹرو نہ سہی، عام بسیں ہی چلا دیں تاکہ ادب و احترام کی روایت کی پاسداری کا ارادہ رکھنے والوں کو چھوٹی سی نیکی کا موقع مل جائے اور ساتھ ہی ساتھ ان ٹوٹوں میں جانوروں کی طرح سفر کرنے سے بھی عوام کی جان چھوٹ جائے۔