اس کے ساتھ ہی وہ تمام افواہیں جو جنرل باجوہ کے عہدے کے حوالے سے اڑ رہی تھیں، وہ دم توڑ گئی ہیں۔ اور ثابت ہو گیا ہے کہ فوج کے ادارے کا ڈسپلن مثالی تھا، اور مثالی ہے۔
اب جب کہ یہ مرحلہ طے ہو چکا ہے، تو سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ جنرل باجوہ کی مدتِ ملازمت میں اس توسیع سے ملک کی اندرونی و بیرونی صورتحال پر کس قسم کے اثرات مرتب ہوں گے؟ اس کے لئے سب سے پہلے یہ یاد دلانا ضروری ہے کہ مارچ 2018 میں انگریزی اخبار Daily Times میں سینیئر دفاعی تجزیہ نگار امتیاز گل کے نام سے ایک رپورٹ شائع ہوئی تھی۔ اس رپورٹ میں انہوں نے جنرل باجوہ سے صحافیوں کی ایک ملاقات کا احوال بیان کیا تھا اور بتایا تھا کہ اس ملاقات میں جنرل باجوہ نے کن معاملات پر اپنی رائے کا اظہار کیا۔ جنرل باجوہ نے مختلف موضوعات پر اپنی جس رائے کا اظہار کیا، اسے ’ باجوہ ڈاکٹرائن‘ کا نام دیا گیا تھا۔
باجوہ ڈاکٹرائن کیا ہے؟
’ باجوہ ڈاکٹرائن‘ میں عدالتوں کے فیصلوں کے احترام اور عدالتوں کے فیصلوں کے ساتھ کھڑے ہونے کا عزم دہرایا گیا تھا، ملک کو دہشتگردوں سے پاک کرنے کی قسم کھائی گئی تھی، قانون کو سب کے لئے برابر قرار دیا گیا تھا، پاکستانی فوج کو سیاست سے دور رکھنے کا عزم ظاہر کیا گیا تھا، ملک کے اندر موجود دشمنوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کا فیصلہ دہرایا گیا تھا، نیشنل ایکشن پلان کے 20 نکات پر تندہی سے عمل کرنے کی بات کی گئی تھی، ’الطاف حسین جیسے سیاستدانوں‘ کو ماضی کا حصہ قرار دیا گیا تھا، افغان طالبان کو امریکی صدر ڈانلڈ ٹرمپ کے ساتھ بات چیت کے لئے راضی کرنے کی کوشش کرنے کی یقین دہانی کروائی گئی تھی، پاکستان کی ترقی کو کسی صورت رکنے نہ دینے کا عزم دہرایا گیا تھا اور اٹھارہویں آئینی ترمیم جیسے قوانین پر ازسرِنو غور کیے جانے کی خواہش کا اظہار کیا گیا تھا۔
اس میں سے تقریباً تمام نکات پر عملدرآمد ہو رہا ہے۔ جس ایک آدھ میں قانونی رخنے موجود ہیں، وہ بھی اللہ خیر کرے گا، ہو جائیں گے۔
دوسرا سوال ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کا مستقبل کیا ہے؟
وزیر اعظم عمران خان اور فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور بارہا فرما چکے ہیں کہ فوج اور حکومت ایک صفحے پر ہیں۔ اگر اس میں کسی کو شک تھا تو وہ دور ہو جانا چاہیے۔ یہ مثالی تعلقات مستقبل میں بھی بہترین رہتے نظر آتے ہیں۔
خطے کا مستقبل کیا ہے؟
جنرل باجوہ نے کرتارپور راہداری کھولی ہے۔ انہوں نے افغانستان کے ساتھ تجارت کو بھی دوبارہ سے کھولا ہے۔ اب جب کہ وہ مزید تین سال بطور آرمی چیف خدمات انجام دیں گے تو یقیناً اسی سوچ کو آگے بڑھاتے ہوئے اس سوچ کو خارجہ پالیسی کا لازمی جز بنائیں گے۔
چین اور امریکہ کے درمیان توازن
گو پاکستان آج بھی چین پاکستان اقتصادی راہداری کو مکمل کرنے کے مشن پر ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ جنرل باجوہ کے دور میں امریکہ سے پاکستان کے تعلقات میں بڑی حد تک بہتری آئی ہے اور چین، جو کہ پاکستان کا ازلی دوست ہے، اس کے باوجود پاکستان کے ساتھ کندھے سے کندھا ملائے کھڑا ہے، تو اسے جنرل باجوہ کی سفارتی میدان میں ایک بڑی کامیابی نہ کہنا زیادتی ہوگی۔
ملکی معیشت میں فوج کا کردار
جنرل باجوہ بارہا معیشت کے حوالے سے بیانات دیتے رہے ہیں۔ ملکی معیشت پر ان کی گہری نظر ہے۔ گذشتہ حکومت میں بھی انہوں نے معیشت کے حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ اب سے کچھ عرصہ قبل بھی وہ نہ صرف معیشت پر بات کر چکے ہیں بلکہ تاجروں سے معاملات بھی انہوں نے ہی سنبھالے جب حکومت اور تاجروں کے درمیان مذاکرات بالکل ناکام ہو چکے تھے۔
اپوزیشن کے ساتھ کیا ہونے جا رہا ہے؟
اس میں کوئی شک نہیں کہ وزیر اعظم عمران خان نے اپنے مخالفین پر عرصہ حیات تنگ کرنے کی جو قسم کھائی تھی، وہ بڑی حد تک پوری کی ہے۔ اور اس میں بھی شک نہیں کہ نواز شریف کے ملک سے باہر جانے پر بھی انہوں نے تحفظات کا کھل کر اظہار کیا ہے۔ مگر جنرل باجوہ کی مدتِ ملازمت میں توسیع کے بعد اس پالیسی میں کوئی بڑی تبدیلی آتی دکھائی نہیں دیتی۔ لگتا یہی ہے کہ حزبِ اختلاف کی جماعتوں پر عمران خان کا غصہ ٹھنڈا نہیں ہوگا، اور فوج سیاست سے لاتعلق رہے گی۔