لاہور میں خادم رضوی کے جنازے کے موقع پر ان کے بیٹے سعد رضوی نے خطاب میں اپنے والد کا مشن جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا۔
سعد رضوی اس وقت لاہور میں اپنے والد کے مدرسہ جامعہ ابو زر غفاری میں درس نظامی کے آخری سال کے طالب علم ہیں۔ درس نظامی ایم اے کے برابر مدرسے کی تعلیم کو کہا جاتا ہے۔
بی بی سی کے لئے اعزاز سید نے حافظ سعد کے دوست سلمان کے حوالے سے لکھا ہے کہ خادم رضوی تقاریر اور اعلانات کیا کرتے تھے جب کہ پالیسی دیگر افراد کے ہمراہ اپنے بیٹے کی مشاورت سے بھی تیار کرتے تھے۔
سلمان کے مطابق سعد رضوی شروع دن سے عملی طور پر تحریک لبیک کے تنظیمی امور چلا رہے تھے، اس لئے ان کے لئے اس جماعت کو چلانا کوئی نئی بات نہیں ہوگی کیونکہ وہ اکثر معاملات کو پہلے سے خود جانتے اور نگرانی کرتے رہے ہیں۔
سعد کے قریبی دوستوں کے مطابق سعد کا کالجز اور یونیورسٹیوں کے طلبہ و طالبات سے گہرا رابطہ ہے۔ وہ شاعری سے خصوصی شغف رکھتے اور سب سے اہم یہ کہ وہ جدید دور میں سوشل میڈیا کی اہمیت سے بھی خوب واقف ہیں اور فیس بک اور ٹویٹر پر اپنے ذاتی اکاؤنٹس چلاتے ہیں۔
تحریک کی طرف سے خادم رضوی کے بیٹے سعد رضوی کو جماعت کا نیا سربراہ مقرر کرنا جماعت کے ووٹ بینک اور چاہنے والوں کو یکجا رکھنے کی کوشش نظر آ رہی ہے۔ کسی اور کی جانشینی کی صورت میں جماعت کے اندر مختلف گروہ بن سکتے تھے مگر خادم رضوی کے بیٹے کا نام سامنے آنے سے جماعت کو گروہوں میں تقسیم ہونے سے بظاہر بچا لیا گیا ہے۔
سعد رضوی کی تعیناتی کے بعد تحریک لبیک میں موروثیت کا قیام اپنی جگہ لیکن اصل سوال اس جماعت کے پلیٹ فارم سے شدت پسندی کا مبینہ فروغ ہے جو جماعت کا نیا قائد آنے کے بعد فی الحال نئی اور شاید توانا شکل ضرور اختیار کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
تاہم، جماعت کے اندر کچھ حلقے سعد رضوی کی بطور امیر تقرری پر تذبذب کا شکار ہیں۔ لاہور میں تحریک لبیک کے یوتھ ونگ میں متحرک ایک نوجوان رہنما نے نیا دور کو بتایا کہ پارٹی میں کئی بزرگ اور زیرک شخصیات کے ہوتے ہوئے اچانک سعد رضوی کی بطور امیر تقرری سے کچھ اچھا میسج نہیں گیا۔ تحریک لبیک کے فالؤرز دیگر سیاسی جماعتوں کو فیملی بزنس سے تعبیر کرتے ہیں اور بابا جی نے بھی اسی تصور پر چوٹ کی۔ اب سعد رضوی کے امیر بننے سے سیاسی طور پر جو اعتقاد اس پارٹی پر تھا محسوس ہوتا ہے اسے ٹھیس پہنچی ہے۔
ساتھ ہی وہ کہتے ہیں کہ بلا شبہ سعد رضوی ایک اچھے منتظم ہیں لیکن اگر آپ غور کریں تو پاکستان میں متنازعہ پشتون تحریک کے علاوہ کسی بھی پارٹی میں نوجوان لیڈر شپ کی وہ قبولیت نہیں جو کہ تجربہ کار اور ادھیڑ عمر رہنماؤں کی۔ اور پشتون تحریک کا نوجوان لیڈر ہی اس تحریک کا چہرہ ہے جب کہ سعد رضوی تحریک لبیک کا چہرہ کبھی بھی نہیں رہے۔
ٹی ایل پی کے جلسوں کی انتظامی ٹیم میں رہنے والے ایک رکن نے نیا دور کو بتایا کہ سعد رضوی کی تقرری دونوں طرف ہی چل سکتی ہے۔ یہ اقدام اگر پارٹی کو یکجا رکھنے کے لئے کیا گیا ہے تو یہ بھی خدشہ ہے کہ یہ نئی تقسیم پیدا کرے۔ ایک سوال پر کہ بریلوی مکتبہ فکر تو مذبی طور پر خانوادوں کو مانتا ہے، ان کا کہنا تھا کہ سیاسی طور پر شاید سعد رضوی کے مقابلے میں اور شخصیات موجود تھیں۔ اب اشرف آصف جلالی گروپ کے ہوتے ہوئے اگر سعد رضوی مؤثر انداز میں لیڈرشپ نہ کر سکے تو پارٹی میں دھڑے بندی میں اضافہ ہوگا۔ ان کا کہنا ہے کہ سعد رضوی کی شخصیت کو جانتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان کے لئے سب سے بڑا چیلنج یہ ہوگا کہ کہاں پر جا کر رکنا ہے اور کہاں جا کر حد قائم کرنی ہے۔
تجزیے جو بھی کہیں لیکن اس بات میں کوئی شک نہیں کہ علامہ خادم رضوی نے ملک کے اکثریتی سنی العقیدہ بریلوی مکتبہ فکر کی سیاسی بیداری، سٹریٹ پاور اور ووٹ بینک کو نئی طاقت اور سمت دی۔ یہ بات بھی اب واضح طور پر نظرآ رہی ہے کہ دنیا میں مسلح تحریکوں کے خلاف حالیہ چند سالوں میں پیدا ہونے والے واضح اور ایک حد تک اجتماعی مؤقف کے بعد ریاست پاکستان اور اس کے خفیہ ادارے شدت پسند دیوبندی عقیدہ کی حامل جہادی یا دہشتگرد تنظیموں سے قدرے پرے نظر آ رہے ہیں۔
پاکستانی سیاست میں پیدا ہونے والے اس خلا کو، بعض مبصرین کے مطابق سنی بریلوی عقیدہ کی جماعت تحریک لبیک پاکستان نے بہت تیزی سے پر کیا تھا۔ جس کی قیادت اب عملی طور پر نوجوان سعد رضوی کے ہاتھ میں آ گئی ہے۔
حالیہ دھرنے اور پھر سب سے بڑھ کر علامہ خادم رضوی کے بڑے جنازے سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ یہ جماعت مستقبل میں اپنی سٹریٹ پاور کے ساتھ پاکستان کے فیصلہ سازوں پر اثرانداز ہونے کی بھر پور صلاحیت رکھتی ہے۔