سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ پی ٹی وی سپورٹس سے پی ٹی وی بڑی آمدن حاصل کرتا ہے مگر انڈیا کا ایک سپورٹس چینل دیگر کمپنیوں کے ساتھ کام کر رہا ہے اُس کی نشریات پاکستان میں دیکھائی جا رہی ہیں جس پر پیمرا حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ لینڈنگ رائٹس کے حوالے سے ہمارا ایک طریقہ کار ہے جب لائسنس دیتے ہیں تو وزارت داخلہ سے سیکورٹی کلئیرنس حاصل کیا جاتا ہے اس معاملے کی بھی انکوائری کر کے قائمہ کمیٹی کو ایک ماہ میں رپورٹ پیش کر دی جائے گی۔ جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ بہتر یہی ہے کہ دس نومبر تک کمیٹی کو انکوائری رپورٹ فراہم کی جائے۔
سنیٹر مصدق مسعود ملک کی 8جون 2020کو سینیٹ اجلاس میں اٹھائے گئے عوامی اہمیت کے معاملہ برائے پاکستان کا غلط نقشہ نشر کرنے کے حوالے سے سیکرٹری اطلاعات و نشریات نے کمیٹی کو بتایا کہ کمیٹی کی ہدایت کے مطابق معاملے کی دوسری انکوائری کرائی ہے جس کی رپورٹ تیار ہو گئی ہے تاہم وزیرا طلاعات و نشریات نے کہا ہے کہ رپورٹ پہلے پی ٹی وی بورڈمیں پیش کی جائے۔
انہوں نے کہا کہ بورڈ ابھی موجود نہیں ہے اور ہائی کورٹ نے چھ ماہ کے اندر بورڈ تشکیل دینے کی ہدایت کی ہے۔ جس پر سینیٹر مولا بخش چانڈیو نے کہا کہ معاملے کے حوالے سے مرحلہ وار سزائیں دینا مناسب نہیں ہے غلطی کسی سے بھی ہو سکتی ہے۔ ایم ڈی پی ٹی وی نے کمیٹی کو بتایا کہ اس معاملے کے حوالے سے پانچ لوگوں کو سزائیں دی تھیں دو کو فارغ کیا اور تین کو معطل کیا گیا۔ تین لوگوں نے فیصلہ صحیح نہیں کیا تھا اور دو لوگوں نے فیصلہ بھی صحیح نہیں کیا اور پراسس کو فالو نہیں کیا اس لئے فارغ کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ مستقبل میں اس قسم کی غلطی سے بچنے کیلئے اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں پراسس میں خامیوں کو بھی دور کیا جا رہا ہے اور سینئر لوگوں کو شامل کیا جا رہا ہے۔ ڈیٹا بیس بنا رہے ہیں اور اب انٹرنیٹ سے چیزیں بھی نہیں اٹھائی جائیں گی۔ چیئرمین کمیٹی سینیٹر فیصل جاوید نے کہا کہ یہ معاملہ کئی ماہ سے پارلیمنٹ میں اٹھایا گیا ہے حیران کن بات ہے کہ پی ٹی وی نے متعلقہ محکمہ جس کی ویب سائٹ پر نقشہ ابھی بھی موجود ہے ابھی تک معاملہ نہیں اٹھایا۔ جس پر کمیٹی کو بتایا گیا کہ ایف بی آر کے ڈائریکٹر کے ساتھ رابطہ کیا گیا مگر انہوں نے ملنے سے انکار کر دیا جس پر کمیٹی نے معاملہ ختم کرتے ہوئے آئندہ اجلاس میں ایف بی آر کو طلب کر لیا تا کہ معاملے کو کلیئر کیا جائے کہ غلط نقشہ ہٹایا جائے۔
کمیٹی اجلاس میں 7ستمبر 2020کو منعقد ہونے والے کمیٹی اجلاس میں دی گئی سفارشات پر عملدرآمد کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ ریڈیو پاکستان نے کمیٹی کی بے شمار سفارشات پر عملدرآمد کر دکھا یا ہے پی ٹی وی کو ریڈیو پاکستان سے سیکھانا چاہئے۔ قرآن کاترجمہ علاقائی زبانوں میں چلانے کے حوالے سے ریڈیو حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ ادارے کے پاس اتنی استعداد نہیں ہے۔فارسی، ترکی و دیگر بڑی زبانوں کے لوگ تو مل سکتے ہیں مگر علاقائی زبانوں والے جو عربی زبان کو بھی سمجھتے ہوئے ان کا ملنا مشکل ہے۔جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ قرآن کا ترجمہ ملک کی قومی زبانوں پنجابی، سندھی، پشتو، سرائیکی، بلوچی و دیگر میں چلایا جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اسلامی تعلیما ت اور قرآن مجید کو سمجھنے کے قابل ہو سکیں۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ ریڈیو پاکستان نے بچوں سے زیادتی کے حوالے سے پیغامات موثر انداز میں چلائے ہیں۔
پی ٹی وی بھی اقدامات اٹھائے تاکہ لوگوں میں شعور پیدا کیا جا سکے۔قائمہ کمیٹی کو پی ٹی وی کی جانب سے بنائے گئے دو پیغامات بھی دکھائے گئے۔ جس پر سینیٹر انجینئر رخسانہ زبیری نے کہا کہ تصویری پیغام زیادہ ہونا چاہیے۔ کمیٹی اجلاس میں ریڈیو پاکستان کے کنٹریکٹ ملازمین کو فارغ کیے جانے کے معاملے کا بھی تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ پچھلے کئی برسوں سے ریڈیو پاکستان میں کنٹریکٹ پر ملازمین بھرتی کیے گئے ہر 90 دن کے بعد کنٹریکٹ کی تجدید کی جاتی تھی۔ ادارے کے پاس 2331 ریگولر ملازمین ہیں 4070پنشنرز ہیں اور ایک ہزار کے قریب کنٹریکٹ ملازمین ہیں۔ رواں سال ادرے کو ایک ارب کم بجٹ دیا گیا۔پنشن کی مد میں 40 ملین روپے کی کمی ہے۔ بے شمار ریڈیو اسٹیشن کے فون بھی کٹ چکے ہیں نئے ٹرانسمیٹر بھی نہیں خرید سکتے۔زیادہ تر کنٹریکٹ ملازمین سفارش پر بھرتی کیے گئے تھے اور چار ماہ سے ان کو تنخواہ بھی نہیں دی گئی۔ جس پر چیئرمین و اراکین کمیٹی نے کہا کہ ادارہ اپنے اخراجات کو کم کرے مگر کسی سے روزگار نہ چھینے۔ پی ٹی وی اور ریڈیو پاکستان کے پاس اربوں روپے کی پراپرٹی ہے ان کا موثر استعمال کر کے آمدن بھی حاصل کی جا سکتی ہے اور ریڈیو پاکستان سے قائمہ کمیٹی نے مارکیٹنگ منصوبہ بندی طلب کی تھی وہ فراہم نہیں کی گئی۔مناسب مارکیٹنگ سے ادارے کو خاصی آمدن حاصل ہو سکتی ہے جس سے ادارے کے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔