بینظیر شاہ کے مطابق جہانگیر ترین رواں سال جون سے شوگر کیس کی تحقیقات کے دوران لندن روانہ ہو گئے تھے کیونکہ ان پر الزام بھی تھا کہ وہ چینی بر آمدات کیس میں سرکاری سبسڈی حاصل کرنے اور قیمتوں میں خود ساختہ اضافے میں بھی ملوث پائے گئے ہیں۔ ماضی میں جب ان پر کرپشن الزامات لگے اور انہیں نا اہل کیا گیا تو وزیر اعظم عمران خان نے تب بھی انکا بھر پور دفاع کیا تھا۔ اس کے بعد اسحاق خاکوانی نے وزیر اعظم کو کہا تھا کہ جہانگیر ترین کے معاملات ذاتی نوعیت کے ہوگئے ہیں۔ لیکن شوگر سکینڈل سے قبل ہی وزیر اعظم اور جہانگیر ترین میں دوریاں بڑھ گئیں تھیں اور شاید اس کا آغاز وزیر اعظم کے حلف اٹھانے کے بعد سے شروع ہو چکا تھا۔
بینظیر شاہ کے مطابق اسحاق خاکوانی کا کہنا ہے کہ جب لوگ حکومتیں تشکیل دیتے ہیں تو بہت محل سازش ہوتی ہے ہر کوئی حکمران کا کان چاہتا ہے اور اور یوں جھگڑا شروع ہو جاتا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جہانگیر ترین کے اس تنازعے کا آغاز آئی ایم ایف بیل آوٹ سے شروع ہو گیا تھا۔ جب اقتدار میں آنے کے بعد عمران خان کو ایسی حکومت ملی جس میں بہت بڑا مالی خسارہ تھا ،وسائل اور ذخائر کی قلت تھی اور پیسے کی قدر بھی نہایت کم تھی۔
اسحاق خاکوانی کا کہنا تھا کہ اس ساری صورت حال میں آئی ایم ایف کا بیل آوٹ ہی واحد حل تھا جس کی حمایت جہانگیر ترین نے کی جبکہ اس وقت کے وزیر خزانہ اسد عمر اس سوچ کے خلاف تھے۔
بینظیر شاہ نے انکشاف کیا کہ اس کے صورت حا ل کے بعد آئی ایم کے ساتھ ایک لمبی بات چیت کا آغاز ہوگیا اور تحریک انصاف کے حلقوں میں اسد عمر کے آئی ایم ایف کے خلاف سخت بیانیئے کو شدید تنقید کا سامنا کرنا لہذا انہیں وزارت خزانہ کے عہدے سے فارغ کر دیا گیا حالانکہ تب کوئی معاہدہ بھی طے نہیں پایا تھا۔ تحریک انصاف کے اندرونی ذرائع کے مطابق جہانگرین ترین اسد عمر کے آئی ایم کے خلاف سخت رویے سے پریشان تھے کیونکہ ان جیسے دولت مندوں کا خیال تھا کہ وہ درست معاہدہ نہیں کر پائیں گے۔
اسد عمر کے جانے کے بعد آئی ایم نے چند ماہ بعد پاکستان کیلئے چھ ملین ڈالر کے بیل آوٹ پیکج دے دیا۔
بینظیر شاہ کی تحقیقات کے مطابق وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے وائس آف امریکہ کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے انکشاف کیا تھا کہ اسد عمر کو وزرات خزانہ کے عہدے سے ہٹانے کیلئے جہانگیر ترین نے سازشیں کیں تو اسد عمر نے دوبارہ پلاننگ کا وزیر بننے کے بعد جہانگیر ترین کو عمران خان کے قریبی حلقوں سے نکالنے کی کوششیں شروع کر دیں۔ اور یوں اسد عمر شدید کوششوں کے بعد ترین کو فارغ کروانے میں کامیاب ہو گئے۔
آخری تنکے کا خاتمہ اس وقت ہوا جب وزیر اعظم نے اس سکینڈل میں ذاتی تحقیقات پر زور دیا اور بہت سے وزراء و مشیران نے خود کو جہانگیر ترین سے دور کرنا شروع کر دیا۔
بینظیر شاہ سے بات کرتے ہوئے اسحاق خاکوانی نے مزید کہا کہ اگرچینی سکینڈل میں موجود تمام ملوں پر چھاپہ مارا جاتا تو ٹھیک تھا مگر صرف جہانگیر ترین کی مل پر چھاپا مارا گیا اور ان کے عملے کوزد و کوب کیا گیا۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اتنے امیر ترین بزنس مین تحریک انصاف کے احتساب کے بیانیئے کیلئے ایک چیلنج بن رہے تھے اسی لئے آہستہ آہستہ انہیں وزیر اعظم ہاوس سے باہر نکالنا شروع کر دیا گیا تھا۔
ایک سیاسی شو کی اینکر پرسن عارفہ نور نے بینظیر شاہ کو بتایا کہ یہ تحریک انصاف کی حکومت کا پہلا بڑا سکینڈل تھا جہاں حکومتی عہدیدار اور انکے ساتھی براہ راست فائدے لیتے پکڑے گئے تھے۔ جس کی وجہ سے حکومت پر مالی بے ضابتگیوں پر شدید تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا۔
تحریک انصاف کے بانی ممبر حامد خان کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کی قیادت کو جہانگیر ترین سے بہت پہلے اپنے راستے جدا کر لینے چاہیئں تھے۔ حامد خان نے اس بات کا اظہار دو دفعہ کیا۔ پہلی بار تب جب تحریک انصاف کے انٹر پارٹی انتخابات میں دھاندلی کے تحقیقات سامنے لائیں گئیں تو حامد خان نے انہیں بطور سیکرٹری جنرل عہدے سے سبق دوش ہونے کا کہا ، اس کے بعد 2018 میں جب سپریم کورٹ میں کرپشن سکینڈل سامنے آنے پر جہانگیر ترین کو بے ایمان قرار دیکر نا اہل قرار دے دیا گیا۔ مگر ان دونوں حالات میں بھی عمران خان جہانگیر ترین کے ساتھ کھڑے رہے۔
حامد خان نے عرب نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ میں نے عمران خان کو 2015 میں انہیں ان سے الگ ہونے کا کہا تھا مگر عمران خان نے کہا چند لوگ انکی مجبوری ہیں جنہوں وہ نہیں چھوڑ سکتے۔