افغانوں کے وہ خواب جو افغانستان کے ساتھ ریزہ ریزہ ہوگئے

افغانوں کے وہ خواب جو افغانستان کے ساتھ ریزہ ریزہ ہوگئے
نوروز افغان اسلام آباد کے ایک فائیو سٹار ہوٹل میں ویڈیو کال پر افغانستان میں موجود اپنی ماں سے گفتگو کررہے تھے اور اُن کی ماں بار بار ان کی منت کررہی تھی کہ ہوٹل کے کمرے سے باہر مت جانا اور حفاظت سے بیرون ملک چلے جانا۔ نوروز افغان ماں کو تسلی دینے کے لئے بار بار یہی جواب دے رہے تھے کہ وہ دن بھر ہوٹل کے کمرے میں ہوتے ہیں اور باہر نہیں جاتے۔ ان کی ماں دعا دیتی ہے کہ اللہ اپ کو باحفاظت باہر ملک پہنچا دیں۔ نوروز افغان کی بزرگ ماں مایوسی کی حالت میں یہی ایک سوال پوچھ رہی تھی کہ بیٹا کیا مرنے سے پہلے میں ایک بار پھر تمہیں کو دیکھ پاؤن گی جبکہ دوسری جانب اسلام آباد کے ہوٹل میں بیٹھا نوروز اپنی بزرگ ماں کو یہی دلاسہ دے رہا تھا کہ ہم جلد واپس آئینگے ہم خوشی خوشی سے ایک بار پھر ساتھ رہینگے۔ نوروز افغان مشکل سے اپنے انسو پر قابو پاتا ہے اور ویڈیو کال بند ہونے کے بعد آنسو کے قطرے اُن کے انکھوں سے سُرخ گالوں پر نمودار ہوتے ہیں اور وہ اپنا سر آسمان کی طرف کرکے کسی گہری سوچ میں پڑ جاتے ہیں اور ان کے منہ سے ایک دردناک آہ نکلتی ہے۔

نوروز افغان کے خاندان نے روسی جنگ کے دوران پاکستان کے خیبر پختونخوا ہجرت کرکے رہائش اختیار کی۔ ان کا خاندان افغانستان کے کاروباری خاندانوں میں شامل تھا اور ایک خوشحال زندگی گزار رہے تھے لیکن یو ایس ایس آر فوجوں کی افغانستان آمد کے بعد جب افغانستان میں حالات خراب ہوگئے تو ان کا خاندان خالی ہاتھوں پاکستان ہجرت کرنے پر مجبور ہوگیا۔ نوروز نے ابتدائی تعلیم پاکستان میں حاصل کی لیکن افغانستان پر امریکی حملے کے بعد ان کا خاندان واپس افغانستان منتقل ہوا اور دوبارہ سے کاروبار شروع کیا۔

نوروز افغان نے پاکستان کی ایک یونیورسٹی سے ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی اور ماسٹرز کرنے کے بعد وہ واپس افغانستان واپس چلے گئے اور اُن کا کہنا ہے کہ میرے زندگی کا ایک ہی ارمان تھا کہ وہ ڈگری کرنے کے بعد واپس اپنے ملک چلا جائے اور تباہ شدہ افغانستان کی بحالی میں اپنا کردار ادا کرے۔ نوروز افغان نے دو سال افغانستان کی ایک وزارت میں کام کیا اور اس کے بعد وہ بین القوامی سکالرشپ پر جرمنی چلے گئے۔

دو سالہ ڈگری مکمل ہونے کے بعد نوروز افغان کے اندر ایک بار پھر ایک بے چینی پیدا ہوئی اور انھوں نے افغانستان واپس جانے کا فیصلہ کیا۔ نوروز افغان کے مطابق افغانستان واپس لوٹنے کے بعد اُن کو ایک بین القوامی تنظیم میں نوکری ملی جس کی تنخواہ دو ہزار ڈالرز سے زیادہ تھی اور کچھ وقت بعد جب وہ معاشی لحاظ سے بہتر ہوئے تو انھوں نے امن و امان کی غیر یقینی صورتحال کے پیشِ نظر اپنے خاندان کو کابل بلایا اور تین سو ڈالر پر ایک فلیٹ کرائے پر لیا ۔

نوروز کے مطابق جب میرے والدین اور بہن کابل منتقل ہوئے تو یہ میری زندگی کا یادگار اور پرمسرت لمحہ تھا کیونکہ اب ہم محفوظ کابل میں رہ رہے تھے۔ نوروز افغان نے نیا دور میڈیا کے ساتھ اسلام آباد میں ایک انٹرویو میں کہا کہ یہ میری زندگی کے خوشیوں بھرے لمحات تھے جب میں والدین کی خدمت کررہا تھا، ان کا علاج اچھے ہسپتالوں میں کروارہا تھا اور ان کی مختلف خواہشات پوری کررہا تھا۔

نوروز افغان نے بتایا کہ افغانستان میں جب حالات خراب ہورہے تھے تو ہم پرامید تھے اور یہی اسی یقین کے ساتھ کابل میں رہ رہے تھے کہ افغانستان اب بہت مضبوط ہے اور طالبان کابل پر قبضہ نہیں کرسکتے کیونکہ افغانستان کی ایک حکومت ، ایک ائیرفورس اور ایک مضبوط فوج ہے اور تخت کابل پر قبضہ کرنا طالبان کا ایک ادھورا خواب ہی ہوسکتا ہے مگر ہم کسی خیالی دنیا میں رہ رہے تھے۔

ان کے مطابق جب اطراف کے شہروں پر قبضہ ہورہا تھا تو ہم تھوڑے پریشان ہوگئے مگر صدر اشرف غنی کے بیانات ہمیں تسلی دیتی تھی اور ہم یہی سمجھتے تھے کہ طالبان کابل پر قبضہ نہیں کرسکتے ۔ نوروز افغان کے مطابق وقت گزرتا گیا اور طالبان کابل کے قریب ہوتے رہے لیکن ہمیں یقین تھا کہ ہماری فوج اور سیاسی لیڈرشپ اُن کو کابل پر قبضہ نہیں کرنے دیگی۔ نوروز افغان کے مطابق جس ادارے میں وہ ملازمت کررہے تھے ایک دن انھوں نے سب کو خبردار کیا کہ طالبان کابل کے بہت قریب اچکے ہیں اور کسی بھی وقت کابل پر قبضہ کرسکتے ہیں لیکن ہمیں یقین نہیں تھا۔

جب خبریں آئیں کہ طالبان کابل کے دروازوں پر پہنچ چکے ہیں اور وہ جلد ہی تخت کابل پر قبضہ کرلینگے لیکن ہمیں پھر بھی یقین نہیں رہا۔

نوروز کے مطابق وہ اپنے دفتر بیٹھ کر خبریں دیکھ رہا تھا کہ اس دوران صدر اشرف غنی کے فرار کی خبریں آئیں تو یہ لمحہ میرے لئے کسی دھچکے سے کم نہیں تھا اور ڈاکٹر غنی کے جانے کے بعد ہمارے اندر رہی سہی اُمید بھی ختم ہوگئی اور ہمیں ایسا لگا کہ ان تاریکیوں کا سفر دوبارہ سے شروع ہو چکا ہے۔

نوروز افغان کے مطابق جب کابل پر طالبان نے قبضہ کیا تو ہمیں بتایا گیا کہ سوشل میڈیا اکاؤنٹس یا تو ڈیلیٹ کردو یا پھر اُن سے تصویریں ہٹا کر اکاؤنٹ پر کوئی اور فرضی نام لکھ دو اور ہم نے سیکیورٹی کی خاطر اس حکم کی تعمیل کی۔ نوروز افغان اپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ کئی دن تک اس کمپاؤنڈ میں قید رہے جہاں زندگی مفلوج ہوئی تھی۔ نوروز افغان نے کہا کہ جیسے جیسے خطرہ بڑھ رہا تھا مجھے ایک ہی چیز تنگ کررہی تھی کہ کیا کابل کے ایک فلیٹ میں انتطار کرتی ماں کو میں دوبارہ سے دیکھ پاؤنگا یا نہیں اور یہی وہ تشویش تھی جو مجھے اندر سے پریشان کررہی تھی۔ ان کے مطابق کمپاؤنڈ میں چھ دن گزارنے کے بعد جب حالات نارمل ہوئے تو میں کابل میں واقعے اپنے فلیٹ چلا گیا اور دروازے پر کھڑی ماں نے مجھ گلے لگاتے ہوئے زور زور سے رونا شروع کیا اور میرے باحفاظت لوٹنے پر رب کا شکریہ ادا کیا۔

نوروز افغان نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ افغانستان کی ایک منتخب حکومت اور ایک فوج تھی اور طالبان کبھی بھی کابل پر قبضہ نہیں کرسکتے تھے مگر بین القوامی طاقتوں نے کابل کو ایک پلیٹ میں رکھ کر طالبان کے حوالے کیا اور لاکھوں افغانوں کی زندگیوں کو دوبارہ ایک تاریک گلی میں دھکیل دیا گیا۔ جہاں روشنی کے آثار دور دور تک نظر نہیں آتے۔

نوروز افغان نے مزید کہا کہ ہم ایک پرامن اور ترقی یافتہ افغانستان بنانے کے خاطر ملک واپس لوٹ چکے تھے مگر اب ایسا لگتا ہے کہ ہمارے وہ خواب ریزہ ریزہ ہوگئے اور شاید ہم کبھی واپس نہ لوٹیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم یورپ یا امریکہ ہم خوشی سے جارہے ہیں لیکن وطن اور گھر چھوڑنے کا درد بہت تکلیف دہ ہے کیونکہ افغانستان جیسا بھی ہے ہمارا ملک ہے اور ہم نے اسی مٹی میں دفن ہونا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں کہ افغانستان میں تو بظاہر امن قائم ہوچکا ہے پھر آپ لوگ کیوں افغانستان چھوڑ رہے ہو پر نوروز افغان نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ اگر آپ نے ساری زندگی تشدد، صنفی مساوات، انسانی حققوق کی پامالیوں کے خلاف جدوجہد کی ہو اور آپ کے نظریاتی مخالف اقتدار سنبھال لیں تو اس سرزمین پر ایک لمحہ گزارنا ایک صدی کے برابر ہوتا ہے۔

ان کے مطابق اُن کے زندگی کا ایک ہی خواب ہے کہ وہ افغانستان کو ایک ترقی یافتہ اور جمہوری ملک دیکھیں لیکن مجھے لگتا ہے کہ جمہوری اور ترقی یافتہ افغانستان کا خواب صرف اور صرف ہماری بعد پیدا ہونے والی نسلیں دیکھ سکیں، ہم نہیں۔

عبداللہ مومند اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔