جمعرات کی صبح اکاؤنٹ سے ٹوئیٹ کیا گیا کہ ہمیں بہت سے لوگوں نے شکایت کی ہے کہ کچھ صحافیوں نے ان کو ناجائز طور پر بلاک کر دیا ہے جب کہ ان کی جانب سے کوئی گالی یا بدتہذیبی بھی دیکھنے میں نہیں آئی تھی۔ اگر آپ کو بھی لگتا ہے کہ آپ کو کسی صحافی نے ناجائز طور پر بلاک کیا ہے تو ہمیں بتائیے۔ ہم ان صحافیوں سے درخواست کریں گے کہ وہ آپ پر سے وہ قدغن ہٹا دیں۔ اس کے ساتھ ہی ایک ہیش ٹیگ استعمال کیا گیا ہے #QuestioningIsNotHarassment یعنی سوال اٹھانا ہراسانی نہیں ہے۔
یاد رہے کہ منگل کے دن بی بی سی اردو پر شائع ہونے والے عاصمہ شیرازی کے کالم کے بعد اسی اکاؤنٹ سے عاصمہ پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ انہوں نے 2018 میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے ساتھ مؤدبانہ انداز میں بات کی تھی۔ ٹوئیٹ میں سوال اٹھایا گیا تھا کہ آپ نے اتنے مؤدبانہ انداز میں ایک 'چور' سے بات کی، اس کی صفائی دیجیے۔
ساتھ ہی وزیر اعظم کے معاونِ خصوصی شہباز گل نے ان پر سرکاری خرچے پر حج کرنے کا الزام لگایا تھا جب کہ یہ واضح ہے کہ عاصمہ شیرازی اور ان کے شوہر پہلے ہی اس کا تمام خرچ اپنے پیسوں سے جمع کروا چکے ہیں۔ وزیر توانائی حماد اظہر اور وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری نے بھی ان پر الزامات لگائے۔ شیریں مزاری نے تو 1971 میں جنرل اے کے نیازی کی طرح بی بی سی کو ہی بھارتی پراپیگنڈا کا ہتھیار قرار دے دیا۔
اس حوالے سے ٹوئٹر پر متعدد افراد نے سیاسی جماعت کے ٹوئٹر اکاؤنٹ کو اس کے اپنے وزرا کی ہی شکایتیں لگانا شروع کر دیں۔ ماہرِ قانون اسامہ خلجی نے کہا کہ میں نے کبھی ٹوئٹر پر گالی نہیں دی لیکن آپ کے دو کابینہ اراکین مجھے بلاک کر چکے ہیں۔ شروعات انہی سے کر لیجیے۔ ایک صارف مہر حسین نے کہا کہ انہوں نے یکساں نصابِ تعلیم کے حوالے سے وزیر تعلیم پنجاب ڈاکٹر مراد راس سے سوال کیا تو انہیں ہی خاموش کروانے کی کوشش کی گئی اور جب ان کے حامیوں نے انہیں آن لائن ہراساں کیا تو انہوں نے روکنے یا اصلاح کی بھی کوئی کوشش نہیں کی۔
ایک صارف لعلین نے لکھا کہ وفاقی کابینہ کے اراکین عوام کو جوابدہ ہیں اور انہوں نے شہریوں کو بلاک کر رکھا ہے۔ شاید آپ کو اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔