عاصمہ کہتی پیں کہ اب کالے بکرے سرِ دار چڑھیں یا کبوتروں کا خون بہایا جائے، پُتلیاں لٹکائی جائیں یا سوئیاں چبھوئی جائیں، معیشت یوں سنبھلنے والی نہیں جبکہ معیشت کے تقاضے تبدیلی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔اب تبدیلی کے اس چرخے میں کون کون آئے گا؟ سیاسی چال ستاروں کے حال سے زیادہ اہم ہے۔ یہ سطور کالم کے اختتام پر ہیں۔ لیکن اس نے ملک کے سوشل میڈیا خاص کر ٹوئٹر پر ایک نئی جنگ کا آغاز کر دیا ہے۔ تاہم، سوال یہ ہے کہ اگر آپ سلیم صافی کے آج کل کے کالم اٹھا لیں، طلعت حسین کے تجزیے سن لیں یا پھر آج کل کامران خان کو ہی سن لیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ جو کچھ عاصمہ شیرازی نے اشاروں کنایوں میں کہا، وہ یہ صحافی براہ راست کہیں سخت الفاظ میں کہہ رہے ہیں۔
لیکن عاصمہ نے کالم کیا لکھا کہ پی ٹی آئی کی وزیر برائے انسانی حقوق کھلے عام اپنی بیٹی سے سوشل میڈیا پر ہی الجھ پڑیں۔
پی ٹی آئی کے تمام آفیشل اکاؤنٹس بطور پارٹی پالیسی عاصمہ شیرازی کے خلاف مواد نشر کرنا شروع ہو گئے۔ اس صورتحال میں بحث ان کیمپس میں بٹ گئی ہے جن میں سے ایک سمجھتا ہے کہ عاصمہ شیرازی نے کالم صحافتی اقدار کے مطابق ہی تحریر کیا جب کہ دوسری جانب وہ کیمپ جس کے مطابق عاصمہ نے صحافتی اقدار پامال کیں جسے حکومت لیڈ کر رہی ہے۔ لیکن اصل خبر اور نکتہ یہ ہے کہ عاصمہ شیرازی کے کالم میں ایسی کیا بات ہے کہ اس پر پی ٹی آئی نے یہ رد عمل دیا۔ اس کا جواب ہے جادو ٹونے کا ذکر جسے اپوزیشن کی جانب سے عوامی بیانیے کے طور پر چلایا گیا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ چل گیا ہے۔
آپ بازاروں گلیوں کوچوں میں نکل جائیں، سیاسی طور پر آپ کو ہر دوجا شخص اس بات پر یقین کرتا نظر آئے گا کہ وزیر اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ سے جڑا یہ جادو ٹونے کا بیانیہ درست ہے۔ اچانک سے اپوزیشن کے پاس ایک ایسا بیانیہ آیا ہے جو پہلے تو سننے میں عجیب لگا لیکن جیسے جیسے مہنگائی بڑھ رہی ہے، عمران خان کی سیاسی ساکھ پر اس بیانیے کی چوٹ محسوس ہو رہی ہے۔ محسوس یہی ہوتا ہے کہ جیسے حقائق ہوں یا نہ ہوں لیکن کرپشن کا بیانیہ سیاسی طور پر مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے ساتھ چمٹ گیا ہے ویسے ہی جادو ٹونے کے بیانیے کے سیاسی پھندے کا سائز عین وزیر اعظم عمران خان کی گردن کے مطابق ہے۔ سیتا وائٹ کیس ہو یا پھر بشریٰ بی بی سے معاشرتی اقدار کے خلاف جا کر شادی کرنا یہ سب وزیر اعظم کو کوئی گزند نہ پہنچا سکے لیکن لگتا ہے کہ وزیر اعظم اب اپنی پہچان جادو ٹونا سیاستدان کی طرح نہیں کروانا چاہتے۔
اس لئے کسی نہ کسی صورت عاصمہ شیرازی کو سبق سکھانے کے لئے ہر حد عبور کی جائے گی۔
اس ضمن میں ڈان نیوز پر وسعت اللہ خان نے اہم بات کی کہ اگر اس الزام میں کوئی حقیقت نہیں ہے تو پھر اس قدر غصہ کیوں؟ انہوں نے کہا کہ یہ جملے جن پر اتنی آگ لگی ہے، ایسے کوئی جملے نہیں ہیں جو پہلے کبھی نہیں لکھے گئے۔ انہوں نے مثالیں دیتے ہوئے یاد دلایا کہ صدر آصف علی زرداری کے زمانے میں یہ الزام لگایا جاتا تھا کہ صدارتی محل میں روزانہ ایک کالا بکرا ذبح کروایا جاتا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا تھا کہ ایک عامل رہتا ہی پریذیڈنٹ ہاؤس میں ہے۔ لیکن جب زرداری صاحب سے سوال کیا گیا کہ کیا اس میں کوئی سچائی ہے تو انہوں نے آگے سے ہنس کر دکھا دیا۔ یہ بالکل ایک سیاسی ردِ عمل تھا اور اس ردِ عمل سے خود بخود یہ افواہیں دم توڑ گئیں۔
اسی طرح نواز شریف کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ ایبٹ آباد کے بابا تنکّا سے انہوں نے ڈنڈے کھائے ہیں اقتدار میں آنے کے لئے۔ بینظیر بھٹو کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ انہوں نے بابا تنکّا ہی کو ہیلی کاپٹر میں گھمایا ہے۔ لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑا۔ وسعت اللہ نے سرد جنگ کے دور کا ایک لطیفہ سنایا کہ ایک شخص روس میں کریملن کے باہر کھڑا زور زور سے گالیاں دے کر کہہ رہا تھا کہ اس شخص نے ایسی کی تیسی کر دی ہے، جب تک یہ رہے گا ملک تباہ ہو جائے گا۔ ارد گرد روسی انٹیلیجنس ایجنسی KGB کے لوگ پھر رہے تھے، انہوں نے گرفتار کر لیا۔ پوچھا ہاں بھئی کیا کہہ رہا تھا۔ وہ بولا میں تو امریکی صدر روزوویلٹ کی بات کر رہا تھا۔ انہوں نے چھوڑ دیا۔ جاتے ہوئے یہ شخص مڑ کر بولا، تم کیا سمجھے تھے؟