دنیا نیوز پر کامران شاہد کے پروگرام میں امجد شعیب نے ڈی جی آئی ایس آئی کی تقرری کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہر ایک کی خواہش رہی ہے کہ فوج کو اپنے زیرِ تسلط رکھے اور فوج اس کے خلاف مزاحمت کرتی رہی ہے کہ وہ کہیں پنجاب پولیس نہ بن جائے۔ فوج دیکھتی ہے کہ کن لوگوں کی مہارت کس کام میں ہے، کریئر منیجنمنٹ بھی آرمی چیف کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ کیونکہ اگر آرمی چیف کسی بندے کو کہیں لگا دے جس کی وجہ سے وہ آرمی چیف کے عہدے کے لئے کوالیفائی نہ کر سکے تو وہ کل کو کہہ سکتا ہے کہ میرے ساتھ کیا انصاف کیا آپ نے؟
امجد شعیب نے مزید کہا کہ آئی ایس آئی میں رہتے ہوئے کچھ لوگ سیاسی طور پر متنازع ہو جاتے ہیں اور پھر ان کو وہاں سے ہٹانا ضروری ہو جاتا ہے۔ اب آپ مریم کے الفاظ دیکھ لیں، شوکت عزیز صدیقی کچھ بول رہا ہے، دوسروں کے بیانات دیکھ لیں۔ چیف آف آرمی سٹاف کے لئے یہ مسئلہ بن جاتا ہے کیونکہ وہ ادارے پر بھی قوم کا اعتماد بحال رکھنا چاہتے ہیں۔
اس سوال پر کہ آخر عمران خان کیوں چاہتے ہیں لیفٹننٹ جنرل فیض حمید کو اسی عہدے پر برقرار رکھا جائے، امجد شعیب کا کہنا تھا کہ یہ ممکن نہیں ہے کہ وزیر اعظم سے مشاورت کے بغیر آرمی چیف نے یہ نام دیا ہو۔
موجودہ حکومت کی کارکردگی پر امجد شعیب کا کہنا تھا کہ میں سمجھتا ہوں کہ قصور حکومتوں کا نہیں بلکہ ہمارا ہے۔ "ہم اتنے جاہل ہیں کہ ہمیں پہلے کسی نے نعرہ لگایا 'روٹی، کپڑا اور مکان'، ہم نے تجزیہ ہی نہیں کیا کہ یہ نہیں ہو سکتا۔ پھر ہمیں کسی نے کہا آپ کو ایشین ٹائیگر بنا دیں گے، ہم نے یقین کر لیا۔ پھر کسی نے کہا 'قرض اتارو، ملک سنوارو'، ہم گھامڑ تھے، ہم نے پھر یقین کر لیا۔ اور اب کسی نے کہا ہم ریاستِ مدینہ بنائیں گے، ہم نے پھر یقین کر لیا۔ ہم ہیں کیا چیز؟ کھوپڑی ہمارے پاس نہیں ہے؟ عقل ہمارے پاس نہیں ہے کہ پہلے دن ہی ان کے منہ پہ ماریں کہ کیا باتیں کر رہے ہو بھائی؟ کدھر سے آئے ہو تم اور کیا ہمیں سمجھانے کی کوشش کر رہے ہو؟"
ان کا کہنا تھا کہ کب تک ہم کھوتے بنتے رہیں گے ان لوگوں کے ہاتھوں؟ ہمیں چاہیے کہ بعد میں بحث نہ کیا کریں، پہلے دن ان کے منہ پر مارا کریں کہ ہمارے ساتھ مذاق نہ کیا کریں آپ، ہم جانتے ہیں آپ کیا چیز ہیں، ہمیں پتہ ہے آپ لوگوں کے اندر کیا ہے اور باہر کیا ہے۔ ہمیں یہ بھی پتہ ہے کہ آپ کے دائیں بائیں کون لوگ بیٹھے ہوئے ہیں۔