حکمران اشرافیہ کی اقتدار کی ہوس نوجوانوں کو مایوسی کی جانب دھکیل رہی ہے

وہ بچے جن کے ہاتھوں میں قلم ہونا چاہیے، اپنی ساتھی طالبہ کے لیے انصاف کے حصول کیلئے احتجاج کے نام پر اپنی ہی درسگاہ کو اپنے ہی ہاتھوں سے توڑتے دکھائی دے رہے ہیں۔ کس نے انہیں سکھایا کہ اپنے حق کیلئے ایسے سڑکوں پر نکلو اور املاک کو نقصان پہنچاؤ، اپنا مستقبل داؤ پر لگاؤ؟

03:56 PM, 21 Oct, 2024

انعم ملک

بدقسمتی کہیں یا موجودہ حالات کی ستم ظریفی، ایسے ملک میں آنکھ کھولی جہاں آج تک بس خوشحالی اور ترقی کیلئے صرف مسلسل جدوجہد ہی دیکھی۔ ہر گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ اس جدوجہد میں مزید اضافہ دیکھا اور نتائج زیرو۔

وقت کے ساتھ ساتھ دنیا نے اتنی ترقی کر لی، ٹیکنالوجی کے جدید دور میں دنیا چاند پر پہنچ گئی اور ہمارے قدم اب تک ڈگمگا رہے۔ ہم نے چاند پر کیا پہنچنا، یہاں تو ہم اپنے گھروں میں خیریت سے پہنچ جائیں تو بڑی بات ہے۔ جی بالکل درست کہا، کبھی بچے لاپتہ، کبھی کوئی جوان اغوا برائے تاوان تو کبھی کسی کی ماں، بہن یا بیٹی غائب اور اب تو ہمارے ریاست کے اہم رکن سیاسی اثر و رسوخ رکھنے والے بھی غیرمحفوظ۔

ہم ایک ایسی غیر یقینی صورت حال میں جی رہے ہیں جہاں ہمیں ہمارے اگلے پل کا بھی کوئی بھروسہ نہیں۔ اللہ کی طرف سے تو جو آئی اسے کوئی ٹال نہیں سکتا لیکن یہاں تو نعوذ بااللہ جو زمینی خدا بیٹھے ہیں انہوں نے تو جیسے انسانیت کو روند کر وحشت، درندگی اور غلاظت کو جس طرح تقویت دے رکھی ہے اس کی مثال پوری دنیا میں کہیں نہیں ملتی۔

ہم آزاد ملک میں رہنے والے وہ قیدی بن گئے ہیں جن کی قید بامشقت شاید ان کی آنے والی سات نسلوں تک ختم نہیں ہو گی۔ ہم تو بچپن سے ریاست کے چار ستون پڑھتے آئے یہاں تو ریاست کے سات خون دیکھنے کو نظر آتے ہیں، وہی سات خون جو اقتدار والوں کو سب کے سب معاف ہیں۔ ہمارا آئین جو صرف ایک کتاب کالی کرنے کیلئے لکھا گیا تھا آج اسی سے کالے قوانین بنائے جا رہے ہیں۔ احتساب کرنے والے انتقامی جنگ لڑ رہے ہیں، ہمارے محافظ دشمنوں کو چھوڑ کر اپنے ہی لوگوں کے ساتھ حالت جنگ میں ہیں۔ ہمارے ہاں ضمیر فروشوں کا بازار گرم ہے، جس کو جتنا موقع مل رہا سب کے سب بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے ہیں۔

کیا مستقبل ہے ہمارا؟ ہماری آنے والی نسلوں کا؟ پہلے وقتوں میں تعلیمی اداروں میں صرف عام تعطیلات ہوا کرتی تھیں، لیکن آج ہمارے ہاں کبھی کووڈ جیسی آفات نے تعلیمی اداروں کو بند کروا دیا تو کبھی موسمی آفات نے، ان سے بچ جائیں تو ملک کے سیاسی حالات ان کی گرما گرمی اپنا احسن کردار ادا کرتی دکھائی دے رہی ہیں۔ کبھی جلسے جلوس، کبھی احتجاج، تو کبھی ملک میں پھیلی بدامنی کی صورت حال۔

ہمارے بچوں کا مستقبل، جان، مال اور عزتیں بھی غیرمحفوظ ہیں، کبھی اداروں سے منشیات پکڑے جانے کی خبریں ملتی ہیں، تو کبھی مدرسوں جیسے مقدس اداروں سے بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات دیکھنے کو ملتے ہیں، اور اب پاکستان کا بہت بڑا اور مقبول تعلیمی ادارہ جس کی کم و بیش سینکڑوں مخلتف مقامات پر برانچز ہیں، جس کا تعلیمی معیار بھی کسی سے کم نہیں لیکن اس جیسے نامور تعلیمی ادارے سے بھی ایک بچی کے ساتھ مبینہ زیادتی کا کیس سامنے آیا۔ میں غالباً اس ادارے کا نام لکھ بھی دوں تو شاید شائع نہیں کیا جائے، اتنا اثر و رسوخ ہے اس ادارے کے مالکان کا۔

اس واقعے کے بعد اب تک کی جو صورت حال ہے وہ انتہائی غمگین دکھائی دیتی ہے۔ وہ بچے جن کے ہاتھوں میں قلم ہونا چاہیے، اپنی ساتھی طالبہ کے لیے انصاف کے حصول کیلئے احتجاج کے نام پر اپنی ہی درسگاہ کو اپنے ہی ہاتھوں سے توڑتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ گلے میں بندھی ٹائی کو ماتھے پر باندھ کر آنکھوں میں بدلے کی آگ اور وحشت لیے سڑکوں پر دندناتے پھر رہے ہیں۔ انصاف کے حصول کیلئے، سچ کی جنگ لڑنے کیلئے یہ طریقہ کار کس نے متعارف کروایا؟ کس نے انہیں سکھایا کہ اپنے حق کیلئے ایسے سڑکوں پر نکلو اور املاک کو نقصان پہنچاؤ، اپنا مستقبل داؤ پر لگاؤ؟ کیا یہی تعلیم دی جاتی رہی ہے ہمارے تعلیمی اداروں میں؟ یہی کچھ وہ دیکھتے اور سیکھتے آئے ہیں؟

صرف اتنا ہی نہیں، ظلم کی انتہا کہ ان بچوں پر جو اس قوم کا مستقبل ہیں، انہیں بجائے سننے، سمجھنے اور سمجھانے کے ان پر تشدد کیا جا رہا ہے۔ انہیں سڑکوں پر گھسیٹا جا رہا ہے۔ کیا ہمارے قوم کا یہی مستقبل ہے؟ ظلم، جبر، اور نفرت۔۔۔۔۔! یہ سب کوئی دہشت گرد نہیں، پاکستان کی نوجوان نسل ہے، جو کسی تربیتی کیمپ سے نہیں بلکہ تعلیمی اداروں سے نکلی ہے، اپنی ساتھی طالبہ کے ساتھ ہونے والی زیادتی کا احتساب مانگنے کیلئے۔

بس کر دیں اب بس! ظلم اتنا ہی کرو جتنا برداشت ہو سکے۔ پھر ہم روتے ہیں کہ ہمارے ملک کا قیمتی اثاثہ اس ملک سے باہر چلا جاتا ہے۔ جب یہ ملک ان کے رہنے کے قابل نہیں چھوڑیں گے تو کون رہے گا اس ملک میں؟ ہمارا ملک ہمارے ہی رہنے کے قابل نہیں رہا، اقتدار کی ہوس نے اس کی بنیادیں اتنی کھوکھلی کر دی ہیں کہ یہ ملک اب ہمارا نہیں صرف اشرافیہ کا بن کر رہ گیا ہے۔ وہی اس کے مالک، انہی کا اپنا قانون، انہی کا آئین، انہی کا راج اور بس وہی برسراقتدار ہیں۔

ہم بحیثیت قوم کس سے اپنا حق مانگیں؟ کون ہمیں انصاف دے گا؟ کون ہماری حفاظت کی ذمہ داری قبول کرے گا؟ کون ہمیں قید بامشقت سے نکالے گا؟ کیا ہمیں ہمارے ہی ملک میں رہ کر، اپنی آزادی کی جنگ لڑنے کی ضرورت ہے؟ کیا ہم پر مسلط حکمران ہمارے اپنے نہیں؟ کیا وہ انگریزوں سے زیادہ ظالم اور جابر حکمران ہیں؟ کیا ان سے بہتر انگریزوں کی ہی غلامی نہیں تھی؟ کیا ہم نے آزادی کے نام پر اپنا خطہ الگ کر کے کوئی غلطی تو نہیں کر لی؟ کیا ہم بھی کشمیر، فلسطین یا بنگلہ دیش بننے جا رہے ہیں؟ وقت پر ان سب سوالوں کے جواب مل جائیں تو شاید ہم اپنا آنے والا کل محفوظ اور بہتر بنا سکیں۔

مزیدخبریں