نواز شریف کو ان کے کمرے میں پہنچا دیا ہوگا جہاں ایک چارپائی کے بعد بمشکل جائے نماز کی جگہ نکلتی ہے۔ مریم نواز زندان کے اس طرف ہوں گی جہاں باقی سارے کمرے خالی ہوں گے اور رات گئے تک سناٹا بولتا رہے گا۔ کیپٹن صفدر ان سے الگ ایک کمرے میں ہوں گے جہاں غم گذیدہ اہلیہ کی سسکیوں کی آواز تک نہیں پہنچ پائے گی۔ ان مجرمان کے کمروں کے باہر پہرہ دینے والے سنتری بھی غم زدہ ہوں گے۔ لیکن ڈیوٹی پر مامور ہونے کی وجہ سے مجرمان سے ہمدردی کا بول بھی بولنے سے قاصر ہوں گے۔ تین دفعہ خاتون اول بننے والی خاتون کے انتقال پر تین دفعہ بننے والے وزیر اعظم سے اظہار تعزیت بھی نہیں کر سکتے ہوں گے۔
نواز شریف جو درست معنوں میں منہ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہوئے تھے اس وقت جیل کی کال کوٹھڑی میں اپنی شریک حیات کی سانسوں کے بغیر پہلی رات جیل میں گزار رہے ہوں گے۔ باتھ روم سے تعفن کے بھبکے اٹھ رہے ہوں گے مگر آج کی رات نواز شریف اس بدبو سے بھی ماورا ہوں گے۔ چھیالیس سال کی رفاقت کے بعد اب وہ صحیح معنوں میں تنہا ہوں گے۔ تمام رات ان کو بیگم کلثوم نواز کے ساتھ بتائے وقت یاد آ رہے ہوں گے۔ شادی، اولاد، خوشیاں اور غم خوب ستا رہے ہوں گے۔ کتنی تصویریں ذہن سے فلم کی طرح گزر رہی ہوں گی۔ اپنے ہاتھوں سے اپنی شریک حیات کو دفنا کر نواز شریف جیل میں پہلی رات کو کیا کیا سوچ رہے ہوں گے۔ انہیں نہ نظام کی فکر ہو گی، نہ سیاست کی، نہ جیل کی، نہ ضمانت کی۔ بس یادوں کے جھروکوں سے کلثوم نواز کی مسکراتی اور حوصلہ مند تصویر نگاہوں کے سامنے آ جاتی ہو گی۔ ساتھ کیے ہوئے سفر ذہن میں آ جاتے ہوں گے۔ بچوں کی سالگرہیں یاد سے محو نہیں ہو رہی ہوں گی۔ فیملی ڈنر یاد آ رہے ہوں گے۔ بچوں کے ساتھ کھنچوائی ہوئی تصویریں ذہن ہر نقش ہو رہی ہوں گی۔
نواز شریف اس قوم کے لیڈر ہیں، بہت سے لوگ ان کے چاہنے والے ہیں، انہوں نے گذشتہ تین روز میں سیاسی رہنماؤں سے ملاقاتیں بھی کیں، جنازہ بھی پڑھا، تدفین بھی کی، قل بھی ہوئے، پرسہ دینے والوں سے ملاقاتیں بھی کیں اور اس تمام عرصے میں اپنا ضبط قائم رکھا۔ لیکن جانے کیوں مجھے گمان ہے اپنی شریک حیات کے بعد جیل میں پہلی رات گزارتے ہوئے وہ اشک بار ہو گئے ہوں گے۔ ضبط کا دامن ہاتھ سے چھوٹ گیا ہو گا۔ آنسوؤں سے دامن بھر گیا ہو گا۔ ہچکیاں بندھ گئی ہوں گی۔ بیگم کثوم نواز سے فون پر کی گئی آخری گفتگو یاد آ رہی ہو گی۔ نزع کے عالم میں شریک حیات کے سرہانے نہ ہونے کا تاسف ہو رہا ہو گا۔ حسن اور حسین کی فکر ہو رہی ہو گی۔ ان کے غم کو بٹانے کا سوچ رہے ہوں گے۔ ان کو گلے لگانے کو تڑپ رہے ہوں گے۔ اب جیل سے رہائی کی تمام خواہشیں دم توڑ چکی ہوں گی۔ ضمانت کے تمام مقدمات میں دلچسپی ختم ہو گئی ہو گی۔ لندن پہنچ کر کینسر کی مریض اہلیہ کا ہاتھ تھامنے کی آرزو اب خواب ہو چکی ہے۔ باوؤ جی کہنے والی آواز اب منوں مٹی تلے دفن ہو چکی ہے۔ نواز شریف کو قبر پر مٹی ڈالنے کا منظر یاد آ رہا ہو گا۔ گیلی مٹی پر مٹھی بھر پھولوں کا آخری تحفہ یاد آ رہا ہو گا۔ تنگ سی غلیظ کال کوٹھڑی کمرے میں دھندلا سا بلب بھی ماضی کے چھیالیس برس کی روشن زندگی یاد دلا رہا ہو گا۔
کیپٹن صفدر اپنی کال کوٹھڑی میں اپنی گرتی صحت کے بارے میں اس وقت قطعی پریشان نہیں ہوں گے۔ وہ اس وقت اپنی شفیق خوش دامن کے بارے میں سوچ رہے ہوں گے جنہوں نے انہیں ماں کی طرح ہمیشہ پیار کیا۔ بیٹوں کی طرح عزت دی۔ مشکل وقت میں ساتھ دیا۔ احترام دیا، عزت دی۔ یہ وہی شفیق خاتون تھیں جو خود چل کر ان کو دیکھنے کے لئے ان کے والدین کے دس مرلے کے گھر میں گئیں۔ ان کی شادی میں امارت، رتبے اور عہدے کو پیش نظر نہیں رکھا۔ بس یہی خواہش کی کہ ہمیں شریف لوگوں چاہئیں، دولت مند ہونے سے کیا فرق پڑتا ہے، یہ تو آنی جانی ہے۔ کیپٹن صفدر کو اس وقت اپنی بان کی چارپائی پر لیٹے اس ماں جیسی خاتون کے آخری ایام یاد آ رہے ہوں گے۔ کس طرح وہ مشکل وقت میں مسکراتی رہی ہوں گی۔ کس طرح خاندان میں داماد کی عزت بڑھاتی رہی ہوں گی۔ کس طرح وہ خاندان کو سنبھالے ہوئے تھیں۔ کس طرح گھر کی ساری رونق اس ماں کے دم سے تھی۔ کس طرح وہ آخری وقت میں اپنے بیٹی، شوہر اور داماد کو تلاش کر رہی ہوں گی۔
مریم نواز شریف کی کال کوٹھڑی کیپٹن صفدر اور نواز شریف کی کال کوٹھڑیوں سے بہت دور ہو گی۔ ماں کے انتقال کے بعد وہ نہ اس لمحے شوہر کا ہاتھ تھام سکی ہوں گی نہ باپ کے گلے لگ سکی ہوں گی۔ اس کال کوٹھڑی کے ارد گرد کے سب کمرے خالی ہوں گے۔ دور تک اندھیرا راج کر رہا ہو گا۔ گہرے سناٹے میں صرف مریم نواز کی سسکیاں گونج رہی ہوں گی۔ وہ اس وقت نہ آمروں کی چیرہ دستیوں کے بارے میں سوچ رہی ہوں گی نہ ستر سالہ سیاسی تاریخ کو کوس رہی ہوں گی، نہ ان کی سوچ کا محور من گھڑت مقدمات ہوں گے، نہ ان کے پاس ایون فیلڈ فلیٹس کے کیسز کے بارے میں سوچنے کی فرصت ہوگی، نہ خواجہ حارث کی دلیلیں ان کو یاد آ رہی ہوں گی، نہ سوشل میڈیا پر بیگم کلثوم نواز کی موت جے حوالے سے چلنے والی سفاک پیش گوئیاں ان کے ذہن میں ہوں گی۔ وہ اس وقت جیل میں مقرر کردہ کال کے بیس منٹ کو کوس رہی ہوں گی۔ وہ سوچ رہی ہوں گی کہ کاش یہ دورانیہ چالیس منٹ ہوتا، چالیس گھنٹے ہوتا یا پھر چالیس دن ہوتا تاکہ ایک بیٹی اپنی ماں کے سامنے دل کی بھڑاس نکال سکتی۔ وہ سوچ رہی ہوں گی کہ کاش ان کو وڈیو کال کرنے کی اجازت ہوتی تو حسن اور حسین کو دم توڑتی ماں کے سامنے جھوٹ نہ بولنا پڑتا کہ مریم بہت مصروف ہے۔ وہ سوچ رہی ہوں گی کہ کاش وہ فون پر اپنی ماں کو بتا سکتیں کہ ماں جس ملک کی تم تین دفعہ خاتون اول رہی ہو اب اسی ملک کی ایک کال کوٹھڑی میں، میں قید ہوں اور آپ کی بیماری کی وجہ سے آپ کو بتا بھی نہیں سکتی۔ ساری رات یہ سوچتے سوچتے مریم نواز نے اپنا ڈوپٹہ بھگو دیا ہو گا۔ آنسو تھم نہیں رہے ہوں گے۔ غم ڈھل نہیں رہا ہوں گا۔ سینہ الم کے مارے شق ہو رہا ہو گا۔ ایسے میں فجر کی اذان ہو گئی ہو گی۔ اذان کی آواز جیل کی دیواروں کو چیرتی کال کوٹھڑی میں آ رہی ہو گی۔ تو ایسے میں مریم نواز کا حوصلہ ہوا ہو گا۔ انہوں نے نماز پڑھ کر خود کو اپنی ماں جیسا بننے کی دعا کی ہو گی۔ خدا سے وہی حوصلہ عطا کرنے کی دعا کی ہو گی۔ آمروں کے سامنے اسی حوصلے سے ڈٹ جانے کی دعا کی ہو گی۔ جانے ان کی دعا قبول ہوتی ہے یا نہیں لیکن ہمیں پتہ ہونا چاہیے کہ بیٹیاں اپنی ماؤں جیسی ہوتی ہیں، انہی کے نقش قدم پر چلتی ہیں۔ ان جیسی ہی بنتی ہیں۔