میں قصور کا باسی ہوں۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے آپ کو کڑوا سچ بتانا پڑے گا۔ پردہ اٹھانا پڑے گا کیونکہ اب پردہ ڈالا نہیں جا سکتا۔ جب حسین خان والا کا کیس سامنےآیا تو میں آپ سب کو سچ بتانا چاہتا تھا لیکن میں شرم کے مارے چپ رہا کہ اپنے ضلعے کو بدنام کیا کروں۔ پھر جب زینب اور 8 دیگر بچیوں کا کیس سامنے آیا تو ایک بار پھر سچ اگلنا چاہا لیکن اس امید پر چپ ہو گیا کہ قاتل پکڑا گیا ہے اب آئندہ ایسا نہیں ہو گا۔ ڈاکٹر شاہد مسعود نے جب ڈارک ویب تھیوری پیش کی تو مجھے شدید غصہ آیا کہ کیا بے پر کی اڑا رہے ہیں۔ دل چاہا سچ بولوں چپ رہا۔ اب نہیں رہوں گا۔ میں نہیں جانتا کہ یہ تحریر کسی فتوے کی مستحق قرار پائے گی یا ستائش کی۔ لیکن سچ سامنے لانے کے لیے یہ سچ اس امید پر لکھ رہا ہوں کہ شائد ہم اس مسئلے کے حل کی جانب بڑھ سکیں۔
قصور جو بابا بلھے شاہ، نور جہاں، فالودے، مچھلی، چھانگا مانگا جنگل، ہیڈ بلوکی، پھولوں، پتوکی کی نرسریز اور دریائے ستلج کے نام سے مشہور تھا۔ اس کی کھوئی ہوئی عزت واپس لا سکیں۔ اگر یہ سچ آپ کے مذہبی یا ثقافتی معیارات پر پورا نہ اتر سکے تو مجھے معاف کیجئے گا۔ مجھے معصوم کلیوں کی زندگی محفوظ کرنے کی سعی کرنی ہے۔
چلیں آپ کو 37 سال پیچھے لے چلتا ہوں۔ اپنے بچپن کے زمانے میں۔ میں ایک بہت نازک سا بچہ تھا۔ رنگ گورا تھا اور والدین میرے نخروں اور خواہشات کو پورا کرنے کی پوری سعی کرتے تھے۔ ماں سرمہ لگا دیتی تھی۔ کریم سے چہرہ ملائم کرتی تھی اور رنگ برنگے سوٹ اور ٹایاں پہنا کر باہر نکالتی تھی۔ جب میں گراونڈ میں کرکٹ کھیلتا تھا یا فٹ بال، گلی ڈنڈا کھیلتا تھا یا بنٹے تو میرے اردگرد اپنے سے بڑے ایسے لڑکوں کا ہجوم کھڑا ہو جاتا تھا جو مجھے اپنا دوست بنانا چاہتے تھے۔ میرے ماں باپ نے بچپن سے ہی میری تربیت کچھ اس انداز میں کی تھی کہ مجھے فوراً اپنے پاس کھڑے شخص کی نیت کی سمجھ آ جاتی تھی۔ امی مجھے بتایا کرتی تھیں کہ کچھ لڑکے لڑکوں کے ساتھ برا کام کرتے ہیں اپنے سے بڑے کو کبھی دوست نہیں بنانا۔ اگر کوئی زیادہ تنگ کرے تو اسے برا بھلا کہہ دینا، ابو کو بتا دینا۔ میں ایسا ہی تھا۔ باوجود کوشش کے میں اپنے سے بڑے کسی لڑکے کا دوست نہیں بنتا تھا۔ لیکن تمام والدین کی تربیت ایک سی نہیں ہوتی۔ میں دیکھا کرتا تھا کہ میرے اردگرد لڑکے اپنے سے بڑے لڑکوں کی بدمعاشی اور مسلسل بری نظروں سے تنگ آ کر، آخر ان کے آگے ہار مان جاتے تھے اور ان کی ہوس پوری کر کے گلی، محلے یا گراونڈ میں کھیلنے کی اپنی خواہش کو پورا کرتے تھے۔
کیونکہ، ایک بار لواطت کے شوقین ان بدمعاشوں کے آگے ہتھیار ڈال دینے کے بعد وہ ان کے منظور نظر بن جاتے تھے اور پھر وہ لڑکے ان کی حفاظت بھی کرتے تھے۔ ان کے لیے لڑتے بھی تھے اور کسی اور کو ان کی جانب دیکھنے بھی نہیں دیتے تھے۔
یہ ایک زبردست بات تھی۔ ایک لونڈے باز بدمعاش کے آگے سر جھکاؤ پھر خود بدمعاش بن جاؤ۔ ایسا نہ کرنے کی صورت میں آپ پر زندگی تنگ کر دی جاتی تھی۔ مختلف حیلوں بہانوں سے آپ سے لڑائی کی جاتی تھی۔ لونڈے باز بدمعاش آپ سے جنسی تعلقات کی بات تب تک نہیں کرتے تھے جب تک آپ ان کے دوست نہ بن جاتے۔ وہ صرف دوستی کی خواہش کرتے تھے۔ لہذا لڑائی کی صورت میں والدین کو کیا بتایا جائے؟ کیونکہ انہوں نے جنسی تعلقات کی بات تو کی ہی نہیں ہوتی تھی۔ وہ تو دوستی چاہتے تھے۔ ایسے میں دوستی نہ کرنا ایک ایسی مشکل زندگی کو دعوت دینا تھا جس کے نتیجے میں آپ کو روز لڑنا تھا۔ روز جھگڑنا تھا۔ اور روز اپنی بقا اور عزت کی جنگ لڑنی تھی۔ ایسے میں اگر آپ لڑنے کا فیصلہ کرتے تو یہ بھی دیکھنا پڑتا تھا کہ کیا آپ کے والدین روز روز کے جھگڑوں میں آپ کا ساتھ دینے کے لیے تیار ہیں یا نہیں۔ ورنہ دونوں جانب سے پسنے کا اندیشہ بھی موجود تھا۔ ایک جانب اوباش اور دوسری جانب والدین۔ اوباش آپ کے انکار سے تنگ، والدین آپ کے جھگڑوں سے۔
لہٰذا خال خال ہی ایسا ہوتا تھا کہ کوئی لڑکا اوباشوں کے مطالبات کے سامنے انکار کا آپشن رکھے۔ آخر اتنی پر آشوب زندگی کون گزارنا چاہے گا۔ اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ شائد ایسا کچھ خاص عمر کے لڑکوں سے ہی ہوتا ہو گا۔ لیکن نہیں ہر عمر کے لڑکوں اور لڑکیوں کا پیچھا کرنے کے لیے ان سے بڑی عمر کے لڑکے موجود تھے۔ اور اگر سچ پوچھیں تو میں سمجھتا ہوں کہ چھپن چھپائی کی طرح لواطت کو بھی قصور میں ایک کھیل کی حیثیت ہی حاصل تھی۔ ٹام اینڈ جیری کی طرح یہ ایک مسلسل جدوجہد کا سفر تھا۔ جس میں انکار اور اقرار، ہاں اور ناں کی جنگ جاری رہتی تھی۔ ہمارا معاشرہ اسے ہرگز برا نہیں سمجھتا تھا۔ اور کسی لڑکے کو زیر کر لینا یا کسی بچے کے ساتھ بدفعلی میں کامیاب ہو جانا ایک فتح کی علامت مانی جاتی تھی۔
اس سے پہلے کہ میں اور لکھوں میں آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا آپ مزید سچ سننے کی ہمت رکھتے ہیں؟ کیا میں جاری رکھوں؟ یہ قسط نمبر 1 ہے۔ صرف ابتدائیہ ہے۔ آنے والے دنوں میں ہوشربا حقائق اور تفصیلات کو سامنے لاتے ہوئے میں اس بات کا مکمل جواب آپ کے سامنے دے دوں گا کہ "صرف قصور ہی کیوں" ؟
ایک ایسا جواب جو آج تک نہ کسی نیوز اینکر نے بیان کیا ہے نہ کسی تجزیہ نگار نے سوچا ہے۔ نبض پر ہاتھ رکھنے جا رہا ہوں۔ سوچ لیجیے!