کہا جاتا ہے جب زنداں ویران ہو جائیں تو پھر جہالت، ظلمت اور غلامی کی سیاہی ہر ماتھے کے جھومر کی سی حیثیت اختیار کر لیتی ہے۔ وادی نظیر ایک مسئلہ سے بڑھ کر ایک معمہ ہے۔ جس کی آغوش میں جذباتی نعروں سے لے کر دردناک آہ و بکا، ہر روشن ضمیر کی سماعت پر بحر میں موجوں سی بے ینی پیدا کرتی ہے۔ اگر حق پرستوں کے قلم حقائق سے زیادہ عقائد کے پابند ہو جائیں تو پھر ضمیر ابدی نیند سو جاتے ہیں۔
گزشتہ دنوں وزیراعظم آزاد کشمیر نے اپنے خطاب میں سسکیاں لیتے کچھ ایسے ہی اپنے جذبات کا اظہار کیا۔ اور اپنے تئیں خود سے زیادہ بیدار قوم کو جگانے کی کوشش کی۔ موصوف نے وزیرخارجہ، چیئرمین سینٹ اور تقریب میں موجود منتخب قیادت کو مخاطب کرتے ہوئے احتجاجا کہا کہ آپ ڈالر چبایں جبکہ سرینگر میں موجود ہماری بیٹیاں اور مائیں ہر روز دروازہ کھول کے دیکھتی ہیں کہ پاکستان فوج آئی کہ نہیں۔ یہ ترش لہجہ ایک مدت سے کشمیر کے آزاد حصے میں بسنے والوں میں پایا جاتا ہے۔
تاریخِ کشمیر کے طالب علم جانتے ہیں۔ قائد اعظم نے جب تحریک کشمیر کا آغاز کیا تھا تو اس وقت بھی شاید معیشت کے مسائل اس سے ابتر تھے۔ قائد نے سرحد پار جانے کی ٹھانی تو فوج بھی پیدا ہوگئی اور حالات کی ستم ظریفی کے باوجود ایک حصہ ناں صرف ڈھنکے کی چوٹ پر آزاد کروایا بلکہ آزاد کشمیر کے کوہساروں میں ہندوستان کے غرور کو بھی دفن کیا۔ جبکہ، قہر یہ ٹوٹا کہ پاکستان نے بین الاقوامی قوانین اور سلامتی کونسل کے وعدوں کی پاسداری کر کے ملک کو ہمیشہ کے لیے جنگ کی تلوار کے سائے تلے لا کھڑا کیا اور پھر جنگ بندی کا اعلان کر دیا۔
شاید اس حد تک فاروق حیدر درست سمت میں ہیں کہ تین بڑی جنگوں میں پاکستان کے پاس روشن مواقع موجود تھے۔ لیکن ہمیں اس جیت کے لیے بھاری قیمت جھکانا تھی۔ جس کے لیے ہم تیار نہیں تھے اور ناں ہی اب تیار ہیں۔
کشمیر میں مسلح جہدوجہد ایک طویل عمر رکھتی ہے۔ جس کے خوفناک نتائج ہمارے سامنے ہیں۔ 1990 کے بعد مسلح جدوجہد نے سر اٹھایا تو کشمیر سمیت ریاست پاکستان کے نوجوانوں نے آزادی کشمیر کے لیے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ مگر 2001 میں 9/11 کے بعد ہم نے خود ان مسلح جتھوں سے جان چھڑوانے کی ٹھانی۔ کیونکہ، حالات کے کروٹ بدلتے ہی ہمیں بھی ان کے ثمرات ملنا شروع ہو گئے تھے۔ 2005 کے خوفناک زلزلے نے ہماری اندرونی طاقت اور مضبوطی کی کلی کھول دی تھی۔ ہندوستان میں 2008 اور اس کے بعد اکثر و بیشتر ہونے والے خودکش حملوں نے پاکستان کو دنیا بھر میں ایک دہشتگرد ریاست کے طور پر فریم کروایا۔ اس پاداش میں ہندوستان نے پاکستان کو اقوام متحدہ کے کٹہرے میں لا کھڑا کیا۔ تو دنیا نے ہمیں کنکریاں مار کر ثواب دارین حاصل کیا۔
محترم فاروق حیدر صاحب! پاکستان کشمیر پر روایتی جنگیں لڑ چکا ہے۔ جس کے نتائج ہمارے سامنے ہیں۔ دوسری طرف جب پاکستان کی توجہ کشمیر سے مغربی سرحدوں پر منتقل ہوئی۔ تو پھر شاید ہی ایسا ہوا ہو کہ آزاد کشمیر کی قانون ساز اسمبلی نے کبھی کشمیر پر مفصل بحث کی ہو۔ فاروق حیدر صاحب کشمیری آج سے نہیں بلکہ 1947 سے آپ کی راہ تک رہے ہیں۔ آج فقط سسکیاں لیتی تحریک آزادی آپ سے سوال کر رہی ہے کہ اگر اپ اپنی ذات تک آزاد ہیں۔ تو پھر آزاد کشمیر کی حکومت نے مقبوضہ کشمیر کے لیے کون سے ایسے عملی اقدامات کیے جو ہمارا حوصلہ بڑھانے کے لیے کافی ہیں۔ اس دور میں جنگ کی ٹھان لینا اس قدر ہولناک ثابت ہو سکتا ہے کہ شاید ہی برصغیر میں کوئی انسانی جان باقی رہے۔ ممکن ہے کہ اس خطے میں انسان تا ابد ناپید ہو جائیں۔ استعمار نے پاکستان کو ہمیشہ مسائل کی دلدل میں جکڑے رکھا۔ جیسا کہ مغربی سرحد پر روس و امریکہ کی صورت میں یلغار یا پھر مشرقی سرحد پر ہندوستان جیسی بھیانک شکل۔ اس ملک کو اپنی معیشت سے کئی گنا بڑی اور مشکل جنگیں لڑنی پڑیں۔
سری نگر میں پاکستان کے ہمدرد اس حقیقت کو مانتے تھے کہ آزادی کے لیے پاکستان نے ہر ممکن مدد میں کسر نہیں چھوڑی۔ آج بھی ہندوستان کے ایوانوں میں یہی سوال کروٹ لے رہا ہے کہ کیا حالیہ آئینی ترمیم ہمارے لیے مثبت ثمرات لائے گی۔ چونکہ وہ جانتے ہیں کہ مقبوضہ کشمیر کے عوام کو مکمل یقین ہے کہ ایک روز آفتاب اپنی کرنوں کے ساتھ ان کے لیے آزادی کی نوید بھی لائے گا۔
محترم فاروق حیدر صاحب! آزادی چند روز خوش نما نعرے لگانے سے نہیں ملتی، آزادی کے لیے مسلسل قربانیاں دینی پڑتی ہیں۔ یہ رونے دھونے کا کام نہیں۔ جدوجہد حقیقی ہو تو ثمرات ممکن ہیں۔
اس سے پہلے چوہدری غلام عباس، کے ایچ خورشید اور مقبول بٹ سمیت بیشتر اس خواہش کا اظہار کر چکے ہیں کہ پاکستان کچھ حد سے زیادہ کرے۔ ایسا کچھ تو ناں ہوسکا مگر ان صاحبان میں سے بیشتر اپنے بیانیے پر دفن ہو گے یا کر دیے گے۔ یہ زیادہ پرانی باتیں نہیں مگر بطور وزیراعظم آزاد کشمیر آپ کو محتاط رہنا چاہیے۔ جنگ ابھی باقی ہے۔