کیا امریکہ کی امن مذاکرات سے پیچھے ہٹنے کی وجہ واقعی ہی طالبان کے حملے ہیں یا حقیقت کچھ اور ہے؟ اس حوالے سے برطانوی خبر رساں ادارے بی بی سی پر آدرش راٹھور کی ایک تفصیلی رپورٹ چھپی ہے۔ اس رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ کی طالبان کے ساتھ مذاکرات سے پیچھے ہٹنے کی وجہ طالبان کی جانب سے حملے نہیں بلکہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان جاری کشیدگی ہے۔
رپورٹ میں لکھا ہے کہ امریکہ کے فوجی کمانڈر مکمل طور پر افغانستان سے انخلا نہیں کرنا چاہتے۔ حال ہی میں سعودی عرب کی تیل کی کمپنی آرامکو پر ہوئے ڈرون حملوں نے اس ضرورت کو اور بھی بڑھا دیا ہے۔ افغانستان میں امریکی فوجیوں کا موجود رہنا اور اس کے فوجی اڈوں کی سٹریٹیجک طور پر موجودگی اہم ہے۔
رپورٹ میں مزید لکھا ہے کہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان کشیدگی بڑھنے سے جنگ کی تشویش ظاہر کی جا رہی ہے۔ اگر ایسا ہوا تو امریکہ اپنے اتحادی سعودی عرب کی حمایت کے لیے آئے گا۔ تب افغانستان میں اس کی افواج کی موجودگی اس کے لیے مددگار ثابت ہو سکتی ہیں۔ ایران اور افغانستان کی سرحدیں آپس میں جڑی ہیں۔ ایسے میں جنگ کی صورتحال میں امریکہ اپنے فوجیوں کو افغانستان میں اتار کر ایران پر زمینی کارروائی کر سکتا ہے۔
ایران کے ساتھ جنگ کی صورتحال میں افغانستان امریکہ کے لیے وہی کردار ادا کر سکتا ہے جو عراق کی جنگ کے دوران قطر نے کیا تھا۔
طالبان کے ساتھ مذاکرات کو ختم کرنے کے اعلان پر سینیئر صحافی رحیم اللہ یوسفزئی کہتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں افغانستان کی جنگ مزید شدت اختیار کر سکتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ چالیس سال سے زیادہ جنگ کی زد میں رہنے والے افغانستان کو اب امن چاہیے۔ بات چیت ہو نہیں رہی اور ٹرمپ نے کہہ دیا کہ وہ ختم ہو چکی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ جنگ بڑھے گی۔ اس سے ایسے حالات بن جائیں گے کہ بات چیت ہو نہیں سکے گی اور پھر پہلے کی طرح جنگ ہو گی اور بے شمار ہلاکتیں ہوں گیں۔