شہرِ گل کے خس و خاشاک سے خوف آتا ہے

اس انتہاپسندی کا ایک نمونہ رواں ہفتے سندھ کے شہر عمر کوٹ میں نظر آیا، جہاں محافظوں نے بغیر کسی تحقیقات کے اپنی ہی عدالت لگا کر ایک ڈاکٹر کو بے موت مار دیا۔ بے شرمی کی حد یہ ہے کہ ریڈ کارپٹ بچھا کر مجرمان کا استقبال کرتے ہوئے ان پر گُل پاشی کی گئی۔

06:43 PM, 21 Sep, 2024

حسن عمر

ہمارے عہد کے نادِرِ روزگار شاعر جناب افتخار عارف کے بعض اشعار ضرب المثل کا درجہ پا چکے ہیں۔ موجودہ دور کے مسلم سماج کی مجموعی نفسیات کا تجزیہ کرتے ہوئے انہوں نے ایک شعر میں ایسی گہری بات کہی ہے کہ جس کا بیان کئی کتب کا متقاضی ہوتا۔ یہ شاعر کا اوج کمال ہے۔

؎ رحمتِ سیدِؐ لولاک پہ کامل ایمان

امتِ سیدِؐ لولاک سے خوف آتا ہے

ہم نے برسوں پہلے چمن آرائی کے لیے جو فصل اپنی زرخیز زمینوں پر بوئی تھی، آج شدت پسندی، نفرت اور تعصب کی صورت میں اسے کاٹ رہے ہیں۔ سماج انتہاپسندی کی آگ میں جل رہا ہے، سزا کا خوف عنقا ہو چکا اور قانون کی قوت نافذہ مدت سے طویل رخصت پر ہے۔ نتیجتاً پورا معاشرہ گھٹن زدہ اور شہر آسیب زدہ ہو چکے ہیں۔ شہریوں کی زندگی کا فیصلہ بے لگام ہجوم کے ہاتھ میں ہے۔ شہر انسانوں کا تعارف ہوا کرتے ہیں اور انسان شہروں کو شناخت عطا کرتے ہیں۔۔۔ شہر کیا ہے؟ ایک الف لیلہ ہے، جو ہزار داستانوں میں نہ سمٹ سکا وہ ہزار لفظوں میں کیونکر بیان ہو۔ عمر کوٹ کا دامن بھی ایسے بہت سے موتیوں سے ذخیرہ ہے۔ یوں تو شہر کئی صدیوں سے آباد ہے لیکن شہر کی شناخت یہ ہے کہ یہاں ہندؤ اور مسلم کی الگ الگ آوازیں سنائی نہیں دیتی ہیں۔

وطن عزیر کے گلی کوچوں میں انتہاپسندی کے نمونے بدرجہ اُتم موجود ہیں۔ ایک نمونہ رواں ہفتے عمر کوٹ میں نظر آیا، جہاں محافظوں نے بغیر کسی تحقیقات اور عدالت کے اپنی ہی عدالت لگا کر ایک ڈاکٹر کو بے موت مار دیا۔ بے شرمی کی حد یہ ہے کہ ریڈ کارپٹ بچھا کر مجرمان کا استقبال کرتے ہوئے ان پر گُل پاشی کی گئی۔ خوش آمدید کرنے والے چہروں میں ایک نام نہاد 'پیر طریقت' بھی تھا اور اپنے مریدین کی حوصلہ افزائی کرنے پہنچا تھا۔ کوئٹہ کے بعد سندھ کے شہر عمر کوٹ میں توہین مذہب کے الزام پر ڈاکٹر شاہنواز کنبھر کو پولیس نے دوران حراست ماورائے عدالت قتل کر دیا۔

کیا کسی بھی شخص پر لگائے گئے الزامات کی تحقیقات اور عدالتی مقدمے کے بغیر یوں ماورائے عدالت قتل انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی نہیں؟

ہاں اس بات میں کوئی شک نہیں کہ سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے، انتہاپسندی کے عفریت نے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ کوئی پتا نہیں چلتا کہ کس وقت کوئی کافر کا الزام لگائے اور لوگوں کا جم غفیر تحقیق سے قبل ملزم کی گردن مار دے۔ اب تو نوبت یہاں تک آ گئی ہے کہ اگر کسی شخص کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر پوسٹس دیکھ کر ہجوم اس کی پھانسی کا مطالبہ کرے تو پولیس تحقیقات کرنے کے بجائے خود ہی اسے قتل کر دیتی ہے۔ ان لوگوں کو ہمارے مذہبی طبقے نے جذباتی مسلمان تو بنا دیا لیکن قرآن کا یہ حکم ازبر نہیں کرایا کہ اگر کوئی فاسق آپ کے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو پہلے تحقیق کر لیا کرو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ نادانی میں کسی کو نقصان پہنچائیں اور بعد میں اس پر ندامت ہو۔ اس سے زیادہ افسوس ناک امر یہ ہے کہ مذہبی طبقات ایک پریشر گروپ کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ اس طرح کے واقعات کی ان کی جانب سے شدت کے ساتھ مذمت کی جاتی ہے اور نا ہی اصلاح احوال کے لئے کوئی کوشش نظر آتی ہے۔

ہمارے ملک میں گورنر سلمان تاثیر انصاف طلب کرنے کا مجاز ٹھہرا ہے اور نا ہی کوئی منصف عارف اقبال بھٹی قانون کے مطابق فیصلہ دینے کا حق رکھتا ہے۔ زیر سماعت مقدمہ کا ملزم منظور بھٹی احاطہ عدالت میں قتل کیا جاتا ہے۔ زیر سماعت مقدمہ کا وکیل دفاع راشد رحمان اپنے چیمبر میں قتل کیا جاتا ہے۔ طالب علم خطیب حسین اپنے استاد خالد حمید کو اہانت مذہب کے الزام میں قتل کر دیتا ہے۔ خوشاب کا بینک مینجر اپنے سکیورٹی گارڈ کے مبینہ اشتعال کا نشانہ بنتا ہے۔ سیالکوٹ میں سری لنکا کے صنعتی منتظم کو مشتعل ہجوم قتل کرتا ہے۔ شمالی پاکستان میں چینی انجینیئر بمشکل بازیاب کروایا جاتا ہے اور چند روز قبل عمرکوٹ میں سوشل میڈیا پر پوسٹس کی بنیاد پر ایک ڈاکٹر کو قتل کر دیا گیا۔ گویا نہ کوئی ملزم محفوظ ہے اور نہ وکیل دفاع، نہ کوئی استاد محفوظ ہے اور نہ ہی ڈاکٹر۔

بقول جون ایلیا

؎ اب نہیں کوئی بات خطرے کی

اب سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے

اگر یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو یہ ملک صرف انسانوں کا ایک بے شعور ہجوم رہ جائے گا اور پھر اپنے بچوں کے پیٹ بھرنے کیلئے دوسروں کے پیٹ پھاڑنے کا سلسلہ زور پکڑے گا۔ خدارا کچھ کر لیجئے، اس سے قبل کہ بہت دیر ہو جائے۔

انتہاپسندی دنیا بھر میں پھیلی ہوئی ہے، آئے روز مختلف ممالک سے انتہاپسندی کے واقعات رپورٹ ہوتے ہیں مگر ایشیائی ممالک بالخصوص پاکستان، افغانستان، انڈیا اور بنگلہ دیش میں انتہاپسندی سے زیادہ جہالت دکھائی دیتی ہے۔ مثلاً حالیہ واقعہ عمر کوٹ ہماری معاشرتی جاہلیت اور دینِ اسلام سے لاعلمی کا عکاس ہے۔ آگ کے شعلے انسانیت کے تمام تقاضوں کو جلا کر بھسم کر رہے تھے۔ گلہ کریں بھی تو کس سے!

عمر کوٹ میں پیش آنے والے واقعہ میں محافظوں نے توہینِ رسالت کے الزام میں ایک شہری کو ہلاک کرنے کے بعد اس کی لاش مشتعل ہجوم کے حوالے کر دی جس کے بعد مشتعل ہجوم نے لاش کو آگ لگا دی تھی۔ عمرکوٹ واقعہ میں ہلاک ہونے والا شاہ نواز ڈاکٹر تھا۔

پاکستان گذشتہ دو عشروں کے دوران انتہاپسندی اور دہشت گردی کے خلاف 70 ہزار سے زائد جانوں کا نذرانہ پیش کر چکا ہے اور اربوں ڈالر کا معاشی نقصان اِس کے سوا ہے۔ آج ہم کوڑی کوڑی کے محتاج ہو چکے ہیں، اپنا سب کچھ آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھ کر گزارا کیا جا رہا ہے۔

عمر کوٹ کا واقعہ دل خراش اور دل دہلا دینے والا ہے۔ آج تک پاکستان میں اٹھنے والی ہر شدت پسند تحریک اپنے مقاصد کے لیے مذہب کا نام استعمال کرتی چلی آ رہی ہے تاکہ اکثریت کو اپنی جانب راغب کیا جا سکے۔ یہاں تک کہ بیرونی طاقتیں بھی پاکستان میں اپنے مقاصد اور اہداف کے لیے مذہب ہی کو حربے کے طور پر استعمال کرتی ہیں اور ریاست و عوام کے خلاف بر سر پیکار قوتوں کی مالی سرپرستی بھی مذہب کے نام پر ہی کی جاتی ہے۔

مزیدخبریں