گذشتہ ماہ ایک ایرانی مذہبی رہنما کو ہسپتالوں میں پڑے کرونا کے مریضوں کو 'بنفشے کا تیل' نامی ایک 'تیل شفا' کے ذریعے صحت یاب کرنے کی ناکام کوشش کے بعد ایک صاحب نے 'مٹی' کو کرونا کے علاج کا ذریعہ بتایا۔ اب ایک نیا ٹوٹکا سامنے آیا ہے کہ اونٹ کے پیشاب میں کرونا کا علاج مضمر ہے۔ یہ ٹوٹکا اس وقت سوشل میڈیا پر زیر بحث ہے۔
ایران میں سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی خبروں اور ویڈیوز میں ایک ایرانی کو جو طب اسلامی کا ماہر ہونے کا دعویٰ کرتا ہے یہ کہتے سنا جا سکتا ہے کہ اونٹ کے پیشاب میں کرونا کا علاج موجود ہے۔
سماجی کارکنوں کا کہنا ہے کہ مہدی سبیلی نامی یہ صاحب امام صادق سائنسی وطبی تنظیم کا ڈائریکٹر ہے۔ سبیلی کی ایک تصویر سوشل میڈیا پروائرل ہوئی ہے جس میں اسے ایک اونٹ کے ساتھ کھڑے دیکھا جا سکتا ہے۔ ساتھ ہی موصوف کا کہنا ہے کہ یہ اونٹ کرونا کی پرورش روکنے کا بہترین علاج ہے۔
ایرانی خاتون صحافی اور خواتین کی حقوق کی علم بردار مسیح علی نژاد کا کہنا ہے کہ اونٹ کے پیشاب سے کرونا کے علاج کا دعویٰ کرنے والے شخص دھوکہ باز ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اس طرح کے ٹوٹکے پیش کر کے لوگوں کو بے وقوف بنایا جا رہا ہے۔ یہ ایک مضحکہ خیز دعویٰ ہے جس کا کوئی آئینی اور قانونی جواز نہیں اور نہ ہی اس کا کوئی سائنسی ثبوت ہے۔