وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے ایف سیون مرکز میں واقع ایک مدرسے کے خطیب اور ان کے خاندان کے 6 افراد میں کرونا وائرس کی تشخیص ہوئی جس کے بعد مدرسے کو انتظامیہ نے سیل کردیا۔
اسلام آباد انتظامیہ کے مطابق ایف سیون مرکز میں واقع مدرسے باب السلام کے خطیب قائم علی شاہ کے والد کچھ روز قبل انتقال کرگئے تھے جس کے بعد ان کو خیبر پختون خوا کے شہر بٹگرام میں دفنایا گیا۔ مذکورہ خاندان کی اسلام آباد واپسی کے بعد ان کا ٹیسٹ کیا گیا جن میں خطیب سمیت 7 لوگوں کا کرونا ٹیسٹ مثبت آیا۔
انتظامیہ کی جانب سے جاری کردہ ایک پیغام میں کہا گیا ہے کہ خطیب کے بیٹے، بہو اور دیگر لوگوں کا ٹیسٹ مثبت آیا جن کو قرنطینہ کردیا گیا جب کہ انتظامیہ تحقیقات کررہی ہے کہ متاثرہ خطیب جس کے ساتھ ملے ہیں ان سب کا ٹیسٹ کیا جائے۔ انتظامیہ کا مزید کہنا ہے کہ مسجد کے خطیب قائم علی شاہ اپنے خاندان سمیت مدرسے کے ایک اخاطے میں رہائش پزیر تھے۔
واضح رہے کہ وفاقی دارلحکومت اسلام آباد میں اس وقت تک کورونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کی تعداد 194 ہے جبکہ تین لوگ وائرس سے ہلاک ہوچکے ہیں۔ وزارت صحت کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ چوبیس گھنٹوں میں وفاقی دارلحکومت میں نو کیسز رپورٹ ہوچکے ہیں۔
انتظامیہ کی جانب سے جاری کردہ ایک پیغام میں کہا گیا ہے کہ خطیب کے بیٹے، بہو اور دیگر لوگوں کا ٹیسٹ مثبت آیا جن کو قرنطینہ کردیا گیا جب کہ انتظامیہ تحقیقات کررہی ہے کہ متاثرہ خطیب جس کے ساتھ ملے ہیں ان سب کا ٹیسٹ کیا جائے۔ انتظامیہ کا مزید کہنا ہے کہ مسجد کے خطیب قائم علی شاہ اپنے خاندان سمیت مدرسے کے ایک اخاطے میں رہائش پزیر تھے۔
واضح رہے کہ وفاقی دارلحکومت اسلام آباد میں اس وقت تک کورونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کی تعداد 194 ہے جبکہ تین لوگ وائرس سے ہلاک ہوچکے ہیں۔ وزارت صحت کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ چوبیس گھنٹوں میں وفاقی دارلحکومت میں نو کیسز رپورٹ ہوچکے ہیں۔
دوسری جانب علما اکرام ملک میں بڑھتے ہوئے کیسز کے باوجود بضد ہیں کہ رمضان میں مساجد کھولی جائیں اور وہاں باجماعت نماز تراویح ہو۔اور اس کے حوالے سے انہوں نے حکومت کے ساتھ شرائط کے بعد ایک معاہدہ بھی کر لیا ہے جس کے بارے میں وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری کہتے ہیں کہ حکومت علما کے ہاتھوں یرغمال بن کر بلیک میل ہو رہی ہے۔ جبکہ طبی ماہرین حکومت کو مسلسل کہہ رہے ہیں کہ رمضان میں مساجد مکمل طور پر بند رہنی چاہیں کیوں کہ یہاں ہونے والے اجتماعات سے کرونا کے بڑے پیمانے پر پھیلنے کا امکان ہے۔