پورا عالمِ اسلام ایک طرف، پاکستان ایک طرف
عالمِ اسلام تو ایک طرف کھڑا ہے جب کہ دین کا خود ساختہ قلعہ ایک خطرناک رستے پر گامزن ہے۔ تمام سماجی اور طبی حلقوں کا یہی کہنا ہے کہ مساجد میں لوگوں کے میل جول سے اس وائرس کے پھیلنے کا مزید خدشہ ہے۔ رمضان المبارک میں باجماعت حاضریوں میں اضافہ ہو جاتا ہے اور ایک ہی دن میں کم از کم 50 لاکھ لوگ ان اجتماعات میں شریک ہوتے ہیں۔ اور جمعہ کی نماز کے وقت یہ تعداد کروڑوں میں پہنچ جاتی ہے۔
وزیر اعظم کو بھی آزادی یاد آ گئی
علمائے دین کی تائید کرتے ہوئے وزیر اعظم صاحب نے ایک عجیب و غریب تاویل پیش کی ہے کہ پاکستان ایک آزاد ملک ہے، اسے آزادانہ پالیسیوں پر عمل کرنا چاہیے اور لوگوں کی آزادی کی پاسداری بھی کرنی چاہیے۔ یہ وہی وزیر اعظم صاحب ہیں جنہوں نے ایسٹر کے موقع پر پاکستان کے مسیحیوں سے گذارش کی تھی کہ وہ گرجا گھر مت جائیں لیکن جہاں پر اکثریتی مسلمان آبادی کی بات آئی تو وزیر اعظم صاحب کو شخصی اور شہری آزادیاں یاد آ گئیں۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں مذہبی گروہوں کا کردار اور حکومتوں کا خوف
آخر پاکستان میں مساجد کھلی رکھنے پر اتنا زور کیوں ہے؟ اس کا جواب ہمیں پاکستان کی تاریخ اور اس کی سیاست کا مذہبی حلقوں کے ساتھ گہرے تعلق میں ملے گا۔ قیامِ پاکستان کے فوراً بعد ہی ملاؤں نے پاکستانی ریاست اور اس کی معاشرت کو ہائی جیک کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ جنرل ایوب خان کے علاوہ تمام سیاسی قوتوں اور فوجی حکومتوں نے ملاؤں کا بھرپور ساتھ دیا، ان کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا اور ان کو اپنی داخلی اور خارجہ پالیسی کا اہم عنصر گردانا۔
آج اسی بوئی ہوئی فصل کو ہم کاٹ رہے ہیں اور اس کا خمیازہ پاکستان کے معصوم عوام بھگتیں گے جن کا دین سے گہرا تعلق بھی ہے اور حکومتی حلقوں سے متضاد پیغامات سے متاثر یہ شہری ابھی بھی قائل نہیں ہو پائے کہ کرونا وائرس آپ پر حملہ کرنے سے پہلے یہ نہیں سوچے گا کہ آپ کتنے دیندار اور صوم و صلوٰۃ کے پابند ہیں۔ اسلام میں عقلیت اور اجتہاد کے تصورات کو پاکستانی دینی حلقوں نے یکسر فراموش کر دیا ہے، بلکہ یوں کہا جائے کہ مٹا ڈالا ہے تو بے جا نہ ہوگا۔
میری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی
پاکستان میں قومیت کا تصور بھی لامحالہ دین سے جوڑا گیا ہے اور جہاں پر لوگوں کو پاکستانی شناخت اور دینی وابستگی میں فرق کو بھی مٹا دیا گیا ہے۔ پاکستان میں مذہب کی بنیاد پر قوم پرستی تو ایک طرف، مساجد اور مدارس پاکستان کے طول و عرض میں لاکھوں نہیں تو ہزاروں خاندانوں کی کفالت کا سبب بھی بنتے ہیں۔ کسی بھی فرقے کی مسجد ایسی نہیں جو نماز کے بعد نمازیوں سے چندہ نہ مانگتی ہو۔ اسی لئے اس طبقے کے لئے اجتماعات کو روکنا معاشی خودکشی کے مترادف ہے۔
دوسرا اہم مسئلہ کمزور سول حکومتوں کے اندر ایک خوف کی کیفیت بھی ہے۔ کیونکہ پاکستان کی تاریخ میں جابجا ان حلقوں نے سیاسی تحریکوں میں شمولیت بھی اختیار کی ہے اور ذوالفقار علی بھٹو جیسے مضبوط اور مقبول وزیر اعظم کو بھی باہر نکال پھینکا ہے۔ یہ طبقات اپنی سیاسی قوت کو بخوبی جانتے ہیں۔ شاید حکومتِ وقت اس امر سے بھی باخبر ہوگی کہ پاکستانی دینی قوتوں اور مقتدر حلقوں کے درمیان ایک گہرا تعلق موجود رہا ہے جو کبھی دیوبندی اور کبھی بریلوی رنگ اپنا لیتا ہے، لیکن ہمیشہ موجود رہتا ہے۔
دیکھا جائے تو عمران خان کو مضبوط سیاسی اپوزیشن کے ہوتے ہوئے بھی سب سے بڑا چیلنج مولانا فضل الرحمٰن کی صورت میں ہی ملا۔ اور اب تو مولانا خادم رضوی اور ان کے ہمنواؤں کی صورت میں ایک اور ہتھیار موجود ہے جو کسی بھی وقت حکومتِ وقت کو بآسانی ہلا کے رکھ سکتا ہے۔
ہمارا اصل مسئلہ مذہب کو سیاست میں شامل کرنا ہے
واقعہ یہی ہے کہ جب آپ مذہب اور سیاست میں امتیاز نہ کر پائیں تو آپ ایک ایسا معاشرہ تخلیق کر دیتے ہیں جس میں عوامی پالیسیاں تنگ نظر ملّاؤں کی تشریحات کے تابع ہو جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک کم عمری کی شادیوں پر خاطر خواہ قانون سازی نہیں ہو پائی اور نہ ہی توہینِ مذہب کا قانون جس کا غلط استعمال بارہا کیا گیا ہے، تبدیل کیا جا سکا ہے۔ اور تو اور آئین اور قانون میں کی گئی تبدیلیاں بھی پارلیمان کی دسترس سے دور ہیں۔ ان کو بدلنا تو دور کی بات، آپ ان پر بحث کا آغاز بھی نہیں کر سکتے۔
اکیسویں صدی کا پاکستان ان رجعت پسند قوتوں کے ہاتھوں یرغمال ہے۔ اور عمران خان صاحب جو کچھ بھی کہیں، ان کے بیانات اسلام آباد اور صوبوں میں قائم حکومتوں کی بے بسی کا مظہر ہیں۔ اور یہ بے بسی صرف سیاسی انتظامیہ کی نہیں بلکہ آپ اس کی ایک صورت عدالتی فیصلوں، افواجِ پاکستان کے بیانیوں اور میڈیا میں بھی دیکھ سکتے ہیں۔ کیونکہ ہم نے اپنے ہاتھوں سے جن قوتوں کو مضبوط کیا ہے اور جن طبقات کی پرورش کی ہے، آج وہ ریاستی قوت سے بھی زیادہ مضبوط ہو چکے ہیں۔
ابھی بھی وقت ہے کہ اگر ایک نئے پاکستان کی بنیاد رکھنی ہے تو عمران خان صاحب تمام سیاسی قوتوں کی مدد اور مشاورت سے ایک لائحہ عمل بنائیں اور ریاستی قوت کو بلیک میل نہ ہونے دیں۔ لیکن اس کی امید بھی کم ہے کیونکہ عمران خان صاحب کی سیاست کا سب سے بڑا کارڈ مدینہ کی ریاست کی تشکیل ہے۔