علی کے مطابق گھانگرو نے اس کے بیٹے کو کئی ڈرپس لگائیں لیکن بچے کی حالت خراب ہوتی گئی جس کے بعد وہ اپنے بیٹے کو کچھ اور ڈاکٹرز کے پاس بھی لے کر گیا۔ ان ڈاکٹرز میں سے ایک، اکبر اربانی نے علی کو بتایا کہ اس کے بیٹے کے مرض کی تشخیص خون کے کچھ ٹیسٹس جیسے کہ ایچ آئی وی، Immunodeficieny virus سے ہوگی، جو کہ انسانی قوت مدافعت کے کچھ سیلز کو ختم کرتا ہے۔ جب کہ ٹیسٹس کروانے پر یہ بات سامنے آئی کہ علی کا بیٹا اس وائرس کا شکار تھا۔
ایچ آئی وی کا تاحال کوئی علاج نہیں تاہم جسم میں اس کے پھیلاؤ کو دوائیوں سے قابو کیا جا سکتا ہے۔ بروقت تشخیص اور درست علاج سے ایچ آئی وی کے مریض کسی بھی عام انسان جیسی زندگی گزار سکتے ہیں۔ لیکن اگر وائرس کا مناسب علاج نہ کیا جائے یا غلط علاج کیا جائے تو مریض کو Immunodeficiency syndrome اور ایڈز ہو سکتا ہے۔
ایچ آئی وی کی تیسری سٹیج جسے ایڈز بھی کہا جاتا ہے کا مریض کو مختلف کینسرز کے علاوہ opportunistic infections لاحق ہو جاتے ہیں جن کا کوئی علاج نہیں۔ اس سٹیج پر پہنچنے والے مریض کی زندگی دو سال یا اس سے کم رہ جاتی ہے۔
علی کا بیٹا ایچ آئی وی کی تیسری سٹیج تک نہیں پہنچا تھا، لیکن ٹیسٹس کی رپورٹ آنے کے کچھ عرصے بعد اس کی موت واقع ہو گئی۔
اسی دوران رتو ڈیرو میں اور بھی کئی بچوں میں ایچ آئی وی کی تصدیق ہوئی۔ جن میں سے 11 بچے آئندہ کچھ مہینوں میں اپنی جان کی بازی ہار گئے۔ ان تمام بچوں کا کبھی نہ کبھی گھانگرو کے کلینک پر علاج ہوا تھا۔ بہت سے لوگوں نے یہ شکایت کی کہ گھانگرو اپنے مریضوں کا بہت لاپروائی سے معائنہ کیا کرتا تھا۔ ایک دو سالہ ایچ آئی وی کے مریض بچے کے باپ کے مطابق، وہ ہر بار نئی سرنج لے کر کر گھانگرو کے کلینک جاتا تھا لیکن گھانگرو نئی سرنج کو اپنی میز پر رکھ کر کوئی دوسری سرنج استعمال کیا کرتا تھا۔
ایک اور مریض کے باپ کے مطابق، گھانگرو ایک ہی بوتل میں سے تین چار مریضوں کو ڈرپ لگایا کرتا تھا۔
کلینک جانے والے کئی علاقہ مکینوں کے مطابق گھانگرو کی میز ہر وقت بکھری ہوئی اور گندی ہوتی تھی۔ ایک شخص جس کی 18 سالہ بیٹی ایچ آئی وی کی شکار تھی نے بتایا کہ گھانگرو کے کلینک کے میز پر ہمیشہ خون کے قطرے لگے ہوتے تھے۔ اور ڈاکٹر اسی میز پر سرنج، کنولا، اور ڈرپ وغیرہ کو بغیر ڈس انفیکٹ کیے، رکھا کرتا تھا۔
سندھ ہیلتھ کیئر کمیشن کے حکام نے لاڑکانہ کی ضلعی انتظامیہ کے ساتھ 29 اپریل کو گھانگرو کے کلینک کے معائنے کے دوران دیکھا کہ گھانگرو ایک ہی سرنج کئی بچوں پر استعمال کر رہا تھا۔ گھانگرو کے کلینک کو اسی وقت سیل کر دیا گیا۔
پولیس کی ٹیم جس نے بعد میں کلینک کا معائنہ کیا کے مطابق کلینک میں کوئی سرنج کٹر موجود نہ تھا۔ کلینک کے حالات سے ایسا معلوم ہوتا کہ مریضوں کا معائنہ بغیر حفاظتی اقدامات کے کیا جاتا تھا۔
30 اپریل کو ارادتاً ایچ آئی وی پھیلانے کے الزام میں گھانگرو کو گرفتار کیا گیا لیکن پولیس تحقیقات کے بعد اسے اس الزام سے بری کر دیا گیا۔ تاہم، اس پر مجرمانہ غفلت کا الزام بدستور موجود ہے۔
یہ بات بعد میں سامنے آئی جو کہ خود گھانگرو کے لئے بھی حیرت کا باعث تھی کہ وہ خود بھی ایچ آئی وی کا شکار تھا۔ میڈیا سے مختصر سی گفتگو میں گھانگرو کا کہنا تھا کہ اسے خود اس بات کا علم نہیں تھا کہ اسے خود بھی ایچ آئی وی لاحق ہے۔
اربانی پہلا شخص تھا جسے اس بات کا علم ہوا کہ رتو ڈیرو میں ایچ آئی وی پھیل رہا ہے۔ جب علاج کے باوجود بچوں کی صحت بہتر نہ ہوئی تو اس نے دو بچوں کے ایچ آئی وی ٹیسٹس کروائے، جن کی رپورٹس نے اس کے شک کو یقین میں بدل دیا۔ دونوں ہی بچوں کو ایچ آئی وی تھا۔ اس کے بعد اس نے اور بھی کئی بچوں کے ٹیسٹس کروائے اور ان سب کو بھی ایچ آئی وی ہی تھا۔
اربانی کی ان تحقیقات کو ایک مریض بچے کے والدین نے 23 اپریل کو سوشل میڈیا پر شیئر کیا جس کے بعد رتو ڈیرو نیوز چینلز کی توجہ کا مرکز بن گیا اور سندھ ایڈز کنٹرول پروگرام کی ٹیم نے فوری طور پر 25 اپریل کو رتو ڈیرو کے سرکاری اسپتال میں ایک ایچ آئی وی سکریننگ کیمپ بنا دیا۔
اس کے بعد سے کیمپ میں ڈاکٹرز اور ٹیکنیشنز ہفتے میں چھ دن لوگوں کے Rapid diagnostic tests کر رہے ہیں۔ اس طرح کے ٹیسٹس ایمرجنسی میں کیے جا سکتے ہیں اور ان کے لئے زیادہ آلات وغیرہ بھی ضروری نہیں ہوتے۔
ڈاکٹر سکندر میمن جو کہ سندھ ایڈز کنٹرول پروگرام کے ساتھ منسلک ہیں کے مطابق، پچھلے کچھ مہینوں میں قریباً 21 ہزار لوگوں کا کیمپ میں ٹیسٹ کیا جا چکا ہے۔ جن میں سے 681 لوگ ایچ آئی وی کا شکار تھے۔
ان لوگوں میں دو سے پانچ برس کی عمر تک کے 380 بچے جب کہ چھ سے پندرہ سال کی عمر تک کے 127 مریض شامل ہیں۔ 55 بچوں کی عمر ایک سال سے کم ہے۔ 15 سے 45 برس کی عمر کے 104 لوگ بھی ایچ آئی وی کا شکار ہوئے ہیں۔ تاہم، یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ 45 برس سے زائد عمر کے لوگوں میں ایچ آئی وی بہت کم پایا گیا ہے۔ اور رتو ڈیرو میں 45 برس سے زیادہ عمر کے ایچ آئی وی مریض صرف 15 ہیں۔
ڈاکٹر میمن کے مطابق ان 681 میں سے کسی کو بھی ایڈز نہیں ہے۔
جن افراد میں ایچ آئی وی پایا گیا، انہیں مزید ٹیسٹوں اور علاج کے لئے لاڑکانہ شہر بھیج دیا گیا ہے۔ جوان مرد و خواتین کو لاڑکانہ کے سول اسپتال، جب کہ حاملہ خواتین کو شیخ زید وومین اسپتال اور کم عمر کے بچوں کے اسپتال منتقل کیا گیا ہے۔ تمام مریضوں کا علاج مفت کیا جا رہا ہے۔
اربانی ان تمام انتظاما ت سے مطمئن نہیں ہیں۔ ان کے مطابق سکریننگ کیمپ میں کیے گئے ٹیسٹس ہمیشہ درست نہیں ہوتے۔ اربانی کے مطابق اس کے زیر علاج 7 مریض جن کے خون کے نمونوں کے کئی لیبارٹریوں میں ٹیسٹس ہوئے اور ایچ آئی وی کی تصدیق بھی ہوئی۔ لیکن کیمپ میں جب ٹیسٹ کیا گیا تو ایچ آئی وی نہیں آیا۔
اربانی کہتے ہیں کہ یا تو کیمپ میں موجود آلات ناقص ہیں یا ٹیکنیشنز درست ٹیسٹس نہیں کر رہے۔
سندھ ایڈز کنٹرول پروگرام کے حکام نے اربانی کی باتوں کی نفی کرتے ہوئے کہا کہ وہ صرف خوف پھیلا رہے ہیں۔ جب کہ کیمپ میں موجود آلات اور عملہ دونوں ہی بہترین ہیں۔
سندھ ایڈز کنٹرول پروگرام کے ترجمان ڈاکٹر ہولا رام کہتے ہیں کہ ہمارا عملہ تربیت یافتہ ہے اور ہم جو ٹیسٹنگ کٹ استعمال کر رہے ہیں وہ عالمی ادارہ صحت کی جانب سے تجویز کردہ ہے۔ ہمارے کیے گئے ٹیسٹس میں غلطی کی کوئی گنجائش نہیں۔
ایک 12 سالہ بچی نے روتے ہوئے بتایا کہ مئی کے مہینے میں کیمپ میں کیے گئے اس کے ٹیسٹ میں یہ بات سامنے آئی کہ اسے ایچ آئی وی ہونے کا شبہ ہے اور اس بات کی تصدیق یا تردید کے لئے ایک اورٹیسٹ کیا جائے گا۔ دوسرا ٹیسٹ ہونے تک وہ روتی رہی اور دوسرے ٹیسٹ سے اس بات کی تصدیق ہوگئی کہ اسے ایچ آئی وی ہے۔
بچی کی بیوہ ماں کو اس بات کا قطعی اندازہ نہیں تھا کہ اس کی بیٹی کو کون سا مرض لاحق ہے اور نہ ہی اس بات کی کوئی وضاحت دی گئی۔ کیمپ میں موجود ایک اور عورت بھی ایچ آئی وی سے ایسے ہی لاعلم تھی۔
رتو ڈیرو میں ایسے کئی لوگ ہیں جنہیں اس بات کا کوئی علم نہیں کہ ایچ آئی وی کیا ہے، کیسے ہوتا ہے، کیسے پھیلتا ہے، اس کا علاج کیسے ممکن ہے وغیرہ۔
کم علمی، لا علمی، غیر یقینی، اور خوف۔ کیمپ میں موجود لوگوں میں یہ بات صاف نظر آرہی تھی۔ سکریننگ کیمپ میں اپنی باری کا انتظار کرتے لوگ زیرِ لب قرآن کی آیتیں پڑھ رہے تھے۔ جن لوگوں کے ٹیسٹس کے نتائج مثبت آتے، وہ اور ان کے گھر والے فوراً رونا شروع کر دیتے۔ اور جن لوگوں کے ٹیسٹ کے نتائج منفی آتے، وہ ایک دوسرے کو مبارک باد دیتے اور گلے لگاتے۔
19 سالہ نعمت جھکرا اپنے گھر کے چھ افراد کے ساتھ کیمپ آئی تھی۔ اس نے بتایا کہ وہ جب کیمپ آئی تو گھبرائی ہوئی تھی۔ لیکن خدا کا شکر ہے کہ ان میں سے کسی کو بھی ایچ آئی وی نہیں ہے۔
ایچ آئی وی ایک Infectious disease ہے جو کہ خون سے لگتی ہے۔ جیسے کہ سرنج کا استعمال، جسمانی تعلق وغیرہ۔ رتو ڈیرو میں، ماں باپ سے بچوں میں ایچ آئی وی پھیلنے کا ریٹ بہت کم ہے۔ سکریننگ کیمپ میں کیے گئے اب تک کے ٹیسٹس رزلٹ کے حساب سے اس طرح کے کیسز صرف 6 فیصد ہیں۔
ڈاکٹر انیلا اسران جو کہ سندھ ایڈز کنٹرول پروگرام کے ساتھ کام کر رہی ہیں کے مطابق خواتین میں ایچ آئی وی زیادہ تر ان کے شوہروں سے منتقل ہوتا ہے۔ کچھ خواتین کو بغیر جانچ کے خون منتقل کرنے سے بھی ایچ آئی وی لاحق ہوتا ہے۔ رتو ڈیرو میں ابھی تک چار حاملہ خواتین میں ایچ آئی وی پایا گیا ہے۔ حاملہ خواتین کے بچوں میں ایچ آئی وی منتقل ہونے کے امکانات کو ادویات کے ذریعے کم کیا جا سکتا ہے۔
ڈاکٹر انیلا نے جون 2011 سے اب تک ضلع لاڑکانہ میں 94 حاملہ خواتین کا علاج کیا ہے جنہیں ایچ آئی وی تھا۔ تاہم، ان میں سے کسی بھی خاتون کے بچے میں ایچ آئی وی منتقل نہیں ہوا۔
ڈاکٹر انیلا کی طرف سے بتائی گئی تعداد اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ ضلع لاڑکانہ میں ایچ آئی وی کے حالیہ کیسز سامنے آنے سے پہلے بھی رتو ڈیرو میں ایچ آئی وی کے مریض موجود تھے۔
صوبہ سندھ میں کراچی کے بعد سب سے زیادہ ایچ آئی وی اور ایڈز کے کیسز میں لاڑکانہ دوسرے نمبر پر ہے۔ اوائل 1996 سے 31 مارچ 2019 تک لاڑکانہ میں ایچ آئی وی کے 2016 جب کہ ایڈز کے 8 کیسز سامنے آئے ہیں۔ جب کہ اسی عرصے کے دوران کراچی میں ایچ آئی وی کے 11 ہزار 282 اور ایڈز کے 78 رجسٹرڈ کیسز سامنے آئے ہیں۔
لاڑکانہ میں ایچ آئی وی اور ایڈز کے زیادہ تر مریض یا تو نشے کے عادی یا پھر جسم فروش ہیں۔ ایک غیر سرکاری تنظیم، مہران ویلفیئر ٹرسٹ کے ڈیٹا کے مطابق، لاڑکانہ میں 200 سے 250 مخنث جسم فروش، 200 مرد جسم فروش، 100 خواتین جسم فروش جب کہ 400 سے 500 نشئی جو کہ استعمال شدہ سرنجوں کو استعمال کرتے ہیں، ایچ آئی وی یا ایڈز کا شکار ہوئے۔
یہ ڈیٹا 2014 میں اکٹھا کیا گیا جسے نیشنل ایڈز کنٹرول پروگرام کے تحت مجتمع کیا گیا تھا۔
مہران ویلفیئر ٹرسٹ کے لئے کام کرنے والے پنجل سنجی کے مطابق، 15 فیصد مخنث جسم فروش اور 18 فیصد نشے کے عادی جو کہ استعمال شدہ سرنجیں استعمال کرتے تھے، ایچ آئی وی یا ایڈز کا شکار ہوئے۔
ان اعداد و شمار سے واضح ہوتا ہے کہ لاڑکانہ میں ایچ آئی وی اور ایڈز پھیلنے کی سب سے بڑی وجہ استعمال شدہ سرنجوں کا استعمال ہے۔ جب کہ گھانگرو کے کلینک پر بھی استعمال شدہ سرنجوں کے استعمال سے ہی بچوں میں انفکشن منتقل ہوا تھا۔
لوکل انتظامیہ نے استعمال شدہ سرنجوں کے استعمال کے خلاف کارروائیوں کا آغاز کیا جس میں اتائی ڈاکٹروں کے خلاف کارروائیاں شامل تھیں۔
ڈاکٹر میمن کے مطابق اب تک ضلع کے شہری اور دیہی علاقوں میں 121 اتائی ڈاکٹروں کے خلاف کارروائیاں کی جا چکی ہیں جن میں ان کے کلینکس کو سیل بھی کیا گیا ہے۔
لیکن ابھی تک بغیر جانچ کے خون منتقل کرنے کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی۔ بہت سے نجی کلینک اور بلڈ بینکس خون لیتے اور دیتے وقت ایچ آئی وی اور ایڈز کے ٹیسٹس بھی نہیں کرتے۔
لاڑکانہ کے سرکاری اور نجی اسپتال اور کلینک اپنا کچرہ اکثر باہر ہی پھینک دیتے ہیں جن میں استعمال شدہ سرنجیں، ڈرپ وغیرہ بھی ہوتی ہیں۔ یہ بھی ایک بڑا مسئلہ اور ایچ آئی وی اور ایڈز کے پھیلنے کا سبب ہے۔ کئی سماجی کارکنوں اور ڈاکٹروں کے مطابق، یہی کچرہ دھو کر اور دوبارہ پیک کر کے، مارکیٹ میں پھر سے فروخت کر دیا جا تا ہے۔
یہ فیچر جولائی 2019 میں Herald میں شائع ہوا جسے نیا دور اردو کے قارئین کے لئے کنور نعیم نے ترجمہ کیا ہے۔