شخصیت پرستی اور اندھی تقلید ایک ایسا نشہ ہے جس کا علاج تاحال کہیں میسر نہیں ہے۔ ماسوائے اس شخصیت کے اس دارفانی سے کوچ کرنے کے یا پھر اس کے فالورز کے ہدایت منجانب خدائے بزرگ وبرتر ملنے کے تاکہ پیروکار حق و باطل کی تمیز کرتے ہوئے شخصیت پرستی کے بھنور سے چھٹکارا حاصل کرسکیں۔
شخصیت فرد واحد کا ایسا نظریہ ہے جس سے لوگ متاثر ہوتے ہوئے جب بڑھ کر ایک گروہ بننا شروع ہوتے ہیں تو پھر سیاسی، مذہبی اور معاشرتی جماعتیں بن جاتی ہیں۔ وہ شخصیت جن کی بدولت یہ گروہ تشکیل پاتے ہیں وہ قائد یا پھر لیڈر کہلاتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ شخصیت کے انفرادی افکار، اطوار، کردار اتنے موثر اور طاقتور بن جاتے ہیں کہ اس کو اس جماعت کا منشور اور نظریہ تصور کیا جانے لگتا ہے۔
اس سارے عمل میں پیروکاروں پر بنیاد پرستی کا عنصر اتنا غالب آ جاتا ہے کہ ان نظریات سے منفی اور سوالیہ رویوں کو اختیار کرنے والا خارجی اور باغی تصور کیا جاتا ہے۔ فی الحال مجھے سیاسی طور پر ابھرنے والی شخصیت کے بارے میں بات کرنی ہے۔ سیاست بھی تغیر اور ارتقا کا نام ہے۔ اس لئے سیاسی شخصیت کی کوئی بات بھی حرف آخر یا حرف کل نہیں کہلا سکتی۔ جبکہ اس کے مقابلہ میں ملک کا آئین وقانون حرف آخر اور حرف کل تصور کیا جاتا ہے۔ ایک شخصیت تو متنازع ہو سکتی ہے لیکن ریاست کے متعین کردہ آئین، قانون اور مروجہ اصول ہرگز متنازع قرار نہیں دیئے جاسکتے کیونکہ آئین وقانون سازی ہمیشہ ایوانوں میں لمبے چوڑے مباحثوں کے بعد ہی اکثریتی اتفاق رائے کے بعد ہی منظور ہو پاتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی شخصیت کتنی ہی دلنشین کیوں نہ ہو۔ کتنی ہی پرکشش اور ہینڈسم ہی کیوں نہ ہو وہ، آئین سے مبرا ہوتی ہے اور نہ آئین سے بالاتر ہوتی ہے۔ یوں تو وطن عزیز میں آئے روز تماشا جمہور کے نئے نئے رنگ اور ڈھنگ دیکھنے میں ملتے رہتے ہیں۔ لیکن حالیہ دنوں جب سے تحریک انصاف کی حکومت گئی ہے اور نئی حکومت نے باگ ڈور سنبھال لی ہے۔ تب سے عمرانی شخصیت اپنے پیروکاروں کے لئے ایک دیو مالائی کردار کے طور پر ابھری ہے۔ ایسا کردار جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا البتہ افسانوی داستانوں میں وہ سپر ڈپر ہیرو سے کم نہیں ہوتا۔ یا پھر یوں کہہ لیجئے کہ کسی نجات دہندہ سے کم تصور نہیں کیا جاتا۔
عمران خان کی سیاسی ریاضت سب ہی جانتے ہیں۔ حکومت میں آنے سے قبل ان کے ببانگِ دہل انقلابی دعوے میرے جیسے بہت سے پاکستانیوں کے لئے متاثر کن تھے کہ یہ بندہ ملک وقوم کے لئے واقعی کچھ کرے گا لیکن پھر سب نے دیکھا اقتدار سنبھالتے ہی عمران خان کے سارے دعوے، سارے وعدے اور سارے منصوبے یکے بعد دیگرے ہوا ہوتے رہے۔ یاران وطن کی حالت ناصرف جوں کی توں رہی بلکہ مزید کسمپرسی ان کا مقدر ٹھہری۔
سہاروں اور سادہ اکثریت کے بغیر بننے والی حکومت کبھی دیرپا نہیں ہوتی اور جلد ہی اس کا شیرازہ بکھر جاتا ہے اور یہی کچھ تحریک انصاف کی حکومت کے ساتھ ہوا۔ جو ساڑھے تین سال میں ہی اپنے اختتام وانجام کو جا پہنچی۔ حکومتوں کے گرنے اور گرانے میں جہاں بہت سے عوامل کارفرما ہوتے ہیں۔ وہاں مرکزی رہنما کی شخصیت بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ اس کی سیاسی وجمہوری، معاملہ فہمی، دور اندیشی، عہد کی پاسداری اور رویوں میں توازن یہ سب خاص عناصر حکومت میں آ جانے والی شخصیت کی حکومت کو دوام بخشنے ہیں۔
لیکن نہایت افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ عمران خان مذکورہ تمام عناصر اور خصائل سے عاری رہے۔ یہی وجہ تھی کہ ان کی ضد، خود پرستی، انتقام کی آگ اور ٹارگیٹڈ دشمنی اور انتظامی صلاحیتوں کا فقدان ان کی حکومت کے جلد خاتمے کا سبب بنے۔ عمران خان کی ترجیحات میں اقتدار کا دورانیہ ملک میں انقلابی پروجیکٹس پر کام کرنے کی بجائے صرف اور صرف مخالفین کے خلاف منصوبہ بندی اور سزائیں دلوانے میں گزرا۔ جب آئین اور قانون کی جنگ لڑتے ہوئے حزب اختلاف، حزب اقتدار اور حزب اقتدار، حزب اختلاف بن چکی ہے تو پی ٹی آئی کی مرکزی قیادت ناصرف اسے قبول کرنے سے انکاری ہے بلکہ اس کے کارکنان بھی اسی ڈگر پر چل پڑے ہیں۔
وفاق اور پنجاب میں عددی اکثریت اور ایوانوں میں آئینی شکست کھانے کے بعد بھی پی ٹی آئی حکومت نے جونک کی طرح اقتدار سے چمٹے رہنے کی ناکام کوشش کی تو اسے کوچہ یاراں سے بے آبرو ہو کر نکلنا پڑا لیکن اس سارے پروسیس میں تحریک انصاف نے پاکستانی جمہوری ایوان میں جو طوفان بدتمیزی اور جمہوری اقدار کو پامال کرنے کی ریت ڈالی ہے، وہ پاکستان کی تاریخ میں دیکھنے میں نہیں ملتی اور اس سب تماشوں کے پیچھے شخصیت کی ضد اور خود پرستی ہی کار فرماہے۔ جو ایک مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کی طرح آئین اور قانون کی نسبت اپنی ذاتی انا اور رٹ کو برقرار رکھنا چاہتی ہے۔ اپنے لیڈر یا جماعت کا اقتدار چھن جانے کے بعد فالورز کا ردعمل ایک فطری عمل ہے لیکن جب یہ ردعمل جنون اور انتہا پسند صورت اختیار کر جائے تو کیا کیا جائے۔
انصافی حکومت نے آئینی شکست اور انتظامی نااہلی کی بنا پر چھن جانے والے اقتدار کو جاتے جاتے کیش کروانے کے لیے امریکی سازش اور متحدہ اپوزیشن پر غداری کا لیبل لگانے کی بھرپور کوشش کی تو اسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ سازش اور غداری ایک الگ باب ہے لیکن فی الحال عمرانی شخصیت کے دلدادہ پیروکاروں کا ملک دشمن ردعمل کسی بھی محب وطن کے لیے زیادہ تکلیف دہ اور پریشان کن ہے۔ جن پر اپنے رہنما کا رنگ اس طرح پختہ ہو چکا ہے کہ اترنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ ہمیں اس چیز سے غرض نہیں کہ عمرانی رنگ اترے نہ اترے لیکن وطن دشمنی کا جنون کا اترنا بہت ضروری بن چکا ہے۔
اس موقع پر مجھے ایک گانےکا مصرع یاد آ گیا” تو جو نہیں تو کچھ بھی نہیں ہے” یہی حال آج کل انصافی کارکنان کا ہے جو کہ برملا کہہ رہے ہیں کہ اگر عمران نہیں تو کچھ بھی نہیں ہے، نہ ہی پاکستانی عدالتیں ٹھیک ہیں اور نہ ہی فوج ٹھیک ہے اور نہ ہی ملکی آئین ٹھیک ہے۔ اس کے برعکس یہ سب ادارے عمران کی نااہلی اور نالائقی کے باوجود اسے گود میں لئے پھرتے رہیں تو ان جنونیوں کے لیے یہ سب معزز ادارے قابل تکریم ہیں۔ لیکن جہاں یہ ادارے میرٹ پر عمرانی سرکار کو چلتا کرتے ہیں، وہیں ان اداروں پر ہرزہ سرائی شروع ہو جاتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ شخصیت پرستی میں لتھڑے ان جنونیوں کی اکثریت امریکہ اور یورپ میں رہتی ہے۔ منافقت ایسی کہ کیا کہنے جو ناکام خان کی حکومت کے کیلئے تلملاتے ہوئے یورپ اور امریکہ میں عمران کے سازشی بیانیہ کو مان رہے ہیں اور احتجاج بھی کر رہے ہیں لیکن اتنے محب وطن ہیں کہ امریکہ اور یورپ کی شہریت چھوڑنے کے کر پاکستان آنے کو تیار نہیں ہیں، مگر دیوانے ایسے کہ پاکستانی پاسپورٹ جلاتے ہیں جو کہ ان کے لئے بہت آسان ہے لیکن امریکہ اور یورپی ممالک کا پاسپورٹ جلانا یا جھنڈا جلانا دور کی بات مگر اس سوچ سے بھی ان کی ہوائیاں اڑ جائیں۔ اس سب کا لامحالہ کریڈٹ عمران خان کو ہی جاتا ہے۔
حیرت اس امر کی ہے کہ تارکین وطن تو تارکین وطن اندرون ملک بھی عمرانی فالورز گراؤنڈ ریلیٹی اور ساڑھے تین سال والا بول بچن والا دور حکومت دیکھنے کے باوجود اپنے لیڈر کے لئے دیوانے ہوئے جا رہے ہیں اور انصافی لیڈر کے خلاف بات کرنے والوں پر غداری سازشی اور رنگ برنگے القابات نوازنے میں دیر نہیں لگاتے۔ کہتے ہیں کہ جادو وہ جو کہ سر چڑھ کر بولے لیکن ہم ایسے جادو کے متحمل نہیں ہو سکتے جس سے قومی اساس، اتحاد اور یکجہتی داؤ پر لگ جائے کہیں ایسا نہ ہو کہ شخصیت پرستی اور اندھی تقلید کی یہ آگ قومی سلامتی وبقا کو اپنی لپیٹ میں لے لے۔ لہذا تمام پاکستانیوں کو شخصیت پرستی اور بوتل سے باہر نکل کر صرف بہترین کارکردگی کی بنیاد پر ہی اپنے لیڈر کا انتخاب اور دفاع کرنا چاہیے تاکہ ملک صحیح معنوں میں ترقی کر سکے۔