پوری قوم کی طرح سیاست ان کی بھی گھٹی میں پڑی ہوئی ہے لیکن سیاسی اور ملکی مسائل کے حل کیلئے ان کے نظریات ساٹھ کی دہائی سے ایک قدم آگے نہیں بڑھے کیونکہ آج بھی ایوب خان اور اس کا دور حکومت ان کا آئیڈیل ہے۔ اسی وجہ سے یہ معصوم لوگ کبھی ہمیں صدارتی نظام تجویز کریں گے تو کبھی ٹیکنوکریٹس والی قومی حکومت یا نیشنل سکیورٹی کونسل کے ذریعے ملکی معاملات چلانے پر زور دیتے نظر آئیں گے لیکن ہر پرزور مطالبے میں ایک مطالبہ لازم ہوگا کہ فوج کا سیاسی وانتظامی اختیار ہر چیز سے بالاتر ہوگا۔
کوئی ہمدرد یہ سمجھانے کی کوشش کرے کہ اس طرح تو گھر نہیں چلتے، ملک کیسے چلے گا اور ایسے تجربات کی وجہ سے موجودہ سے بڑا ملک گنوایا جا چکا ہے تو سانحہ مشرقی پاکستان کا ذمہ دار بھٹو کو ٹھہراتے ہوئے پتلی گلی سے نکلنے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ اس تاریخ کا مطالعہ ان کیلئے شجر ممنوعہ ہے۔
ویسے اس بات پر ریسرچ بھی ضروری ہے کہ بھٹو کو کس سال سے مشرقی پاکستان توڑنے کا ذمہ دار ٹھہرایا جانے لگا۔ کچھ زیادہ سال نہیں گزرے جب یہ تمام افسران ریٹائرمنٹ کے بعد بالکل عام سویلین کی طرح زندگی گزارتے تھے۔ ان کی روزمرہ زندگی کسی طرح بھی عام سویلین سے مختلف نہیں تھی۔
پھر اچانک علیحدہ کالونیاں بننے لگیں اور یہ تمام لوگ اپنے پاکستانی بھائیوں سے علیحدہ اور بالکل مختلف زندگی گزارنے لگے اور شاید اسی وجہ سے یہ دوست اپنے آپ کو سویلین کہنے کی بجائے ایکس سروس مین کہلانا پسند کرنے لگے اور اس انفرادیت نے سویلینز کے اندر ایک بالکل نئی اور منفرد کلاس پیدا کر دی جو ریٹائر ہو کر بھی ریٹائر نہیں ہوتی۔
شاید مشرف کے اوائل دور میں ایکس سروس مین سوسائٹی کا قیام عمل میں آیا۔ شنید ہے کہ اس سوسائٹی کی بنیاد رکھنے کے روح رواں بھی مجاہد پاکستان جنرل حمید گل ہی تھے۔
ایکس سروس مین سوسائٹی کے ممبران کی تعداد تقریبا چار لاکھ بتائی جاتی ہے اور اوپر سے نیچے تک تمام سابق افسران ہیں۔ سیاسی پارٹیوں کی جعلی رکن سازی مہم کو اگر خاطر میں نہ لایا جائے تو ایکس سروس مین سوسائٹی کے ممبران کی تعداد کسی بھی مقبول سیاسی جماعت سے زیادہ ہے۔
ان کا سیاسی انداز فکر بہت حد تک بیرون ملک شہریت حاصل کرنے والے سابقہ پاکستانیوں سے مشابہ ہے بلکہ ان کی اکثریت یا ان کے بچوں کے پاس بھی یورپ یا امریکہ کی شہریت ہوتی ہے لیکن یہاں سبھی مرگ بر امریکہ ہوتے ہیں۔
بظاہر بہت اصول پسند ہوتے ہیں لیکن آئین کے ذکر سے سخت الرجک ہوتے ہیں۔ تمام مارشل لا اور آمر ان کے ہیرو ہیں۔ اس لئے عمران خان کا آئین توڑنا انہیں سمجھ ہی نہیں آتا۔ اس لئے انہیں 73 اور آج کل 18 کے ہندسوں سے سخت نفرت ہے۔ اصول پسندی کی بنیاد پر اپنے بچوں کیلئے آئین اور قانون والا ملک ڈھونڈتے ہیں لیکن ہمارے لئے ماضی کی طرح 2018 میں دھاندلی کرکے عمران خان کو لانا عین ثواب سمجھتے ہیں۔
ایکس سروس مین سوسائٹی بنانے کے اغراض ومقاصد بظاہر تو ریٹائرڈ افسران کی فلاح وبہبود کے متعلق تھے لیکن تیزی کے ساتھ یہ تنظیم ریاست اور سیاست کے معاملات میں اپنی رائے کو تھوپنے لگی ہے۔ بظاہر تو اس تنظیم کے بہت سے اراکین ہیں لیکن تقریباً دو سو اراکین ہی ایسے ہیں جو اپنی سوچ کو اس تنظیم کی مجموعی سوچ بنا کر ایک خاص طاقت حاصل کر کے ملک کے داخلی وخارجی معاملات پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتےہیں۔ ایسے لوگوں کی زیادہ تعداد راولپنڈی میں موجود ہے۔
یہ ہر مسئلے کا "ایوبی حل" پیش کریں گے کیونکہ زمینی حقائق سے مکمل طور پر کٹے ہوئے ہیں۔ اسی وجہ سے ان کی اکثریت جمہوریت بیزار نظر آئے گی۔ ان کی نظر میں ہر سیاستدان بدعنوان ہوتا ہے، سوائے اس سیاستدان کے جو اس وقت ان کیلئے لاڈلا بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ آج کل ان کی اکثریت عمران خان پر جان دینے کو تیار ہے بلکہ اس کیلئے کچھ تو ریڈ لائن بھی کراس کر رہے ہیں حالانکہ ان میں سے کئی بڑے ایکس سروس مین کو بار بار درخواست کے باوجود عمران خان نے ملاقات کا وقت تک نہیں دیا تھا۔ یہ بھی ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ ان کی اکثریت ماضی میں نواز شریف کو ووٹ دیتی رہی ہے۔
درحقیقت یہ دوست اس وقت بڑی معصوم اور مظلوم کیفیت میں ہیں۔ تاریخی طور پر ایسے ہوتا رہا ہے کہ جس سیاستدان کو ریاستی راندہ درگاہ کرنا ہوتا تو اسے سکیورٹی رسک یا غدار قرار دینے کے بیانیہ کو کامیاب کرنے کیلئے اوسطاً پانچ سے سات سال لگ جاتے تھے۔
حسین شہید سہروردی، بھٹو، فاطمہ جناح، بے نظیر اور نوازشریف سب کو پانچ سے سات سال کی بھٹی سے گزار کر ہی سکیورٹی رسک یا ادارہ جاتی دشمن قرار دیا جا سکا اور اس کام کیلئے قدیم اور جدید دونوں ادوار میں جاگیردار، سرمایہ دار اور ایکس سروس مین ہمیشہ ہی اثاثہ ثابت ہوئے ہیں۔ لیکن اس بار تو معاملہ روایت سے بالکل ہٹ کر ہوا کیونکہ ایکس سروس مین کے علم میں لائے بغیر ہی عین آئین پر عمل کرتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ غیر جانبدار ہو گئی اور دنوں میں عمرانی حکومت کا دھڑن تختہ ہو گیا اور ساتھ ہی دس سالہ منصوبے کا بھی خاتمہ ہو گیا۔
چونکہ اس افتاد کیلئے صاحبان تیار نہیں تھے اور عمران خان کا بت فارن فنڈنگ کی مدد سے جدید ابلاغی وسائل کو استعمال کرتے ہوئے اور اتنی دیر تراشا گیا تھا کہ ان صاحبان کی نظر میں عمران خان ابھی تک گھوڑے پر سوار تلوار سونتے ہوئے مجاہد اُمہ بنے بیٹھا تھا۔ البتہ عمرانی حکومت کے سال ڈیڑھ سال میں یہ صاحبان حکومتی کارکردگی سے مایوس ہو کر کسی سیاسی گفتگو میں کھسیانے ضرور ہو چکے تھے لیکن عمران مخالف بیانیہ تو ابھی ان کیلئے جاری ہی نہیں ہوا تھا کجا یہ کہ یہ بیانیہ ان پر پانچ سات سال کام کر چکا ہوتا۔
پھر عمران نے تو اس طبقہ کی افتاد طبع کو مدنظر رکھتے ہوئے سی پیک کی قبر پر لات مارتے ہوئے مرگ بر امریکہ کا نعرہ بھی لگا دیا۔ بس پھر کیا تھا ان کے تئیں اگر عمران خان کے خلاف کھڑے سیاستدان امریکی ایجنٹ تھے تو غیر جانبدار ہوئی اسٹیبلشمنٹ کیسے بری الذمہ ہو سکتی تھی۔
سوشل میڈیا پر تو پی ٹی آئی نے ان لوگوں کی جعلی آوازیں بنا کر پیغامات نشر کروائے لیکن واٹس ایپ گروپس میں تو یہ صاحبان کھل کر اسٹیبلشمنٹ کو تنقید کا نشانہ بناتے دکھائی دیتے ہیں۔
فطری وفاداری کا اتحاد حیرت ناک طریقے سے عمران خان توڑ چکا ہے۔ معیشت و معاشرت کے ساتھ اور چین وامریکہ کے ساتھ تعلقات کی جو تباہی عمران خان نے کی اس کا پتہ صرف انہیں تھا جنہوں نے اسے بطور وزیراعظم بھگتا۔
ریٹائرڈ صاحبان کو بھلا ان معاملات کا کیا علم ہوتا لہذا کسی نے یہ کہہ کر غبار نکالا کہ عمران خان بہانہ ہے، فوج دراصل نشانہ ہے اور بعض نے اس طرح کی تنقید اور الزامات لگائے جو اس سے پہلے صرف سیاستدانوں پر لگائے جاتے تھے۔ ایک واٹس ایپ گروپ میں ایک سینئر ایکس سروس مین آج کے دن تک اس طرح جذبات میں پائے گئے ہیں کہ سنبھالے نہیں سنبھل رہے۔ ہر پوسٹ کا جواب دیتے ہوئے زرداری، بلاول اور نواز شریف کے ساتھ موجودہ فوجی قیادت کو مطعون کرنا ان کا ہر وقت کا معمول ہے۔
چونکہ دوسرے سیاستدانوں کے برعکس عمران خان کے خلاف بیانیہ بروقت نہیں چل سکا، اس لئے عمران خان نے اس موقع کو خوب اپنے حق میں استعمال کیا ہے۔ عمران خان نے اپنے منہ سے کبھی جنرل قمر جاوید باجوہ کو اپنی حکومت گرانے کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا لیکن اشاروں میں ان بھولے بادشاہوں کو وہ سبق پڑھایا ہے جس کے ذریعے وہ اسٹیبلشمنٹ پر دباؤ ڈالنے کا منصوبہ بنائے ہوئے ہیں اور اس پر تیزی سے کام جاری ہے حالانکہ ابھی عمران کی طرف سے غلطی کو درست کرنے جیسے پیغام دئے جا رہے ہیں اور ساتھ ہی ایکس سروس مین کی تنقید کے ذریعے افراتفری کی فضا پیدا کی جا رہی ہے۔
ابھی کوئی دباؤ میں نہ آیا تو اس منصوبے کا دوسرا حصہ اکتوبر میں شروع ہوگا۔ کچھ ریٹائرڈ حضرات موجودہ اسٹیبلشمنٹ کو مین سٹریم میڈیا پر نام لے کر تنقید کا نشانہ بنائیں گے لیکن تب الزامات مختلف ہوں گے۔
پہلا الزام یہ لگایا جائے گا کہ بھارت سے دوستی کی شرط پر کشمیر کا سودا کر دیا گیا اور اس کام میں عمران خان شامل نہیں تھے۔ دوسرا الزام یہ ہے کہ عمران خان نے اسٹیبلشمنٹ کے تمام تر دباؤ کے باوجود اسرائیل کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور تب سے اسٹیبلشمنٹ کے تعلقات عمران سے خراب ہونا شروع ہو گئے۔
پھر یہ کہ خارجہ اور معاشی محاذ پر عمران خان نے تمام فیصلے اسٹیبلشمنٹ کے کہنے پر کئے لیکن ذمہ دار صرف انہیں ٹھہرایا گیا۔ قومی سلامتی کمیٹی کے تازہ اعلامیہ کے باوجود میڈیا پر نہ سہی لیکن واٹس ایپ گروپس میں ابھی سے یہی کہا جا رہا ہے کہ سازش کو چھپانے کیلئے اور بھی اجلاس ہونگے لیکن دراصل تمام طاقتور لوگ عمران خان کو گرانے کیلئے امریکہ کے ساتھ تھے، یعنی سب امریکی ایجنٹ ٹھہرے۔
ابھی تو ان ریٹائرڈ دوستوں کو استعمال کرنے کی خاطر صرف غلطی کو درست کرنے کی فرمائش ہے یا فوج بہت اچھی ہے کا نعرہ بھی لگایا جا رہا ہے کہ فوری طور پر کچھ نرمی ہو جائے لیکن نومبر میں بقیہ فوج بہت اچھی لیکن جنرل قمر باجوہ کے خلاف ایک پوری مذموم مہم چلے گی جس کی ابتدا مبینہ طور پر پیارے ایکس سروس مین سے کروائی جائے گی اور انتہا پی ٹی آئی کا سوشل میڈیا مافیا اور عمران خان کریں گے۔
اس کا ایک مقصد یہ بھی ہوگا کہ نئے چیف کو بھی دباؤ میں رکھا جائے۔ یہ بہت اچھا فیصلہ ہے کہ انہیں ٹی وی سکرین سے اتار لیا گیا ہے لیکن بہت جلد اب ان کو یہ بھی بتانا ہوگا کہ اب وہ بھی باقی لوگوں کی طرح سویلین ہو چکے ہیں۔
دیر سے سہی لیکن اب انہیں آئین پڑھانا اور اس کی قدر بتانا ہوگی۔ اگلے چند مہینوں میں ان دوستوں کو سخت احتیاط کا مشورہ پہنچنا چاہیے اور ساتھ یہ پیغام بھی کہ ملک کیلئے فیصلے ایکس سروس مین نے نہیں بلکہ سروس میں موجود لوگوں نے کرنے ہیں۔ یہ سبق بہت جلد شروع ہونا چاہیے، نہیں تو تقسیم کی سازش کا دائرہ جہاں تک پھیلایا جا رہا ہے، وہاں تباہی کے سوا کچھ بھی نہیں۔