نیا دور ٹی وی کے پروگرام ''خبر سے آگے'' میں اپنا تجزیہ پیش کرتے ہوئے نجم سیٹھی نے کہا کہ جتنے مرضی حقائق تحریک اںصاف والوں کے سامنے رکھ دیں لیکن وہ یہ ماننے کو قطعی طور پر تیار نہیں کہ عمران خان کی حکومت کیخلاف کوئی غیر ملکی سازش نہیں ہوئی تھی۔ حقیقت تو کچھ اور ہے لیکن اسے پہنچاننے کیلئے یہ تیار نہیں ہیں۔
نجم سیٹھی کا کہنا تھا کہ عمران خان ایک بات اچھی طرح سمجھ چکے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ عوام کو اکھٹا کرنے کیلئے بڑا ہی زبردست ہے۔ لیکن ان کو اس چیز کا اندازہ نہیں کہ اقتدار میں واپس جانے کیلئے یہ اتنا سود مند ثابت نہیں ہوگا۔ ان کا خیال تھا کہ اگر آرمی کی قیادت کو ٹارگٹ کیا جائے گا تو فوج کے اندر سے ہی ان پر اتنا دبائو بڑھے گا کہ وہ پیچھے ہٹنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ ان کی کوشش تھی کہ کسی نہ کسی طریقے سے تقسیم کی جائے لیکن جب ان کو اندازہ ہوا کہ ایسا کرنے سے تو کریک ڈائون آ رہا ہے۔ آرمی قیادت نے تنقید کے باوجود یکجتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے کنٹرول کر لیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن اتحاد کو اس چیز کا بخوبی احساس ہو گیا تھا کہ یہ ابھی یا کبھی نہیں والی صورتحال پیدا ہو چکی ہے۔ اگر اس کا حل نہ نکالا تو ان کا کھاتہ ختم ہونے جا رہا ہے۔ کیونکہ اگر عمران خان نومبر 2022ء تک رہ جاتا تو انہوں نے ایسے افسر کو آرمی چیف بنا دینا تھا جس نے ماضی میں بھی 2018ء کا الیکشن جیتنے کیلئے ان کی بھرپور مدد کی تھی۔ وہ چار سال ان کی پشت پناہی کرتے رہے لیکن جیسے ہی ایک اہم عہدے سے وہ ہٹے تو سب سے دیکھا کہ لوگوں نے پی ٹی آئی کو چھوڑ کر جانا شروع کر دیا۔
انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم کو یہ فکر لاحق تھی کہ اگر عمران خان کو اقتدار سے نہ ہٹایا گیا تو پھر ویسی ہی صورتحال پیدا ہو جائے گی کہ وہ نئے آرمی چیف کیساتھ مل دوبارہ سے 2023ء کے الیکشن میں دھاندلی کرکے اپنی حکومت بنا لیں گے۔ پھر یہ دونوں مل کر مزید پانچ سال رہیں گے۔ عمران خان کی خواہش کے تحت بننے والے آرمی چیف کو ایکسٹینشن دیدی جائے گی جبکہ عمران پانچ سال رہے گا۔ ان کا 2028ء تک اقتدار میں رہنے کا پروگرام تھا۔
نجم سیٹھی کا کہنا تھا کہ لوگ کہتے ہیں کہ اگر عمران خان اپنی مقبولیت کھوتے جا رہے تھے تو ان کو اپنی مدت پوری کرنے دینی چاہیے تھی تاکہ وہ عوام کی نظر میں اور غیر مقبول ہو جاتے اور 2023ء میں ہونے والے صاف اور شفاف الیکشن میں ان کی ویسے ہی چھٹی ہو جاتی۔ اس حوالے سے میں سمجھتا ہوں کہ عمران خان کو اچھی طرح علم ہے کہ ان کی پاپولیرٹی گرنا شروع ہو چکی ہے۔ اگر پی ڈی ایم نے جو ذمہ داری اپنے کاندھوں پر لی ہے، اسے سنبھال لیا تو نومبر میں عمران خان کے نیا آرمی چیف لانے کے عزائم کامیاب ہونگے اور نہ ہی الیکشن جیت سکیں گے۔
ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کو جو اس وقت عوامی سپورٹ مل رہی ہے وہ جذباتی قسم کے لوگ ہیں۔ جذباتی سپورٹ جیسے اوپر چڑھتی ہے ویسے ہی نیچے ہی گرتی ہے۔ گلیپ سروے اور دیگر کے اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ اگر آج ہی الیکشن کرا دیئے جائیں تو پنجاب کی سطح پر انھیں 30 فیصد سے زائد سیٹیں نہیں مل سکتیں۔
ان کا کہنا تھا کہ سول ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی لیڈرشپ متحد ہو چکی ہے۔ اس صورتحال میں نقصان اگر ہوگا تو عمران خان اور پی ٹی آئی کا ہوگا۔ سب کو اس بات کا علم ہے کہ نومبر تک سروائیو کرنا ہے کیونکہ عمران خان اور ان کے فیورٹ جنرل آ گئے تو سب کیلئے مشکل ہو جائے گی۔ اس لئے سب کا متحد رہنا ضروری ہے۔