دیگر مسافروں کی طرح بار بار ان کے چہرے پربھی مسکراہٹوں کا بسیرا ہونے لگا۔ منزل جب قریب آنے لگی تو اترتے ہوئے کنڈیکٹر کی تعریف کرنے کے ساتھ ساتھ اسے گرو دت کا دفتر کا پتا بتایا کہ وہ اُن سے ملاقات کر ے ’ ممکن ہے کہ اس کے اس ٹیلنٹ سے متاثر ہو کر وہ فلم میں کوئی کام دے دیں۔ مسافروں کو ٹکٹ تقسیم کرنے والے اس نوجوان کو تو سمجھیں جیسے خود لاٹری کا ٹکٹ مل گیا ہو، اداکاری اس کا جنون اور عشق تھا، جس کے خاطر وہ اندور سے ممبئی کا سفر کرچکا تھا۔ رات بھر اس کی آنکھوں سے نیند غائب تھی۔ اگلے ہی دن کام سے چھٹی لے کر وہ گرو دت کے دفترپہنچ گیا۔
مگر یہاں بھی اس نے کچھ انوکھا کرنے کی ٹھانی۔ گرودت کے دفتر میں اس وقت بھونچال مچ گیا جب ہر کسی کو یہ پتا چلا کہ ایک شرابی آدھمکا ہے۔ نوجوان مے نوشی کے خمار میں ایسے جم کر اداکاری کررہا تھا ہر کوئی پریشان ہوگیا۔ گرو دت خود چکرا گئے، اس سے پہلے ملازمین اس نوجوان کو ڈنڈا ڈولی کرکے دفتر سے باہر پھینکتے وہ چیخ کر بولا کہ وہ تو شرابی کی اداکاری کررہا تھا۔ بس پھر کیا تھا، جو کچھ دیر پہلے پریشان تھے وہ اب مسکرا رہے تھے اور ان میں گرودت بھی شامل تھے۔ نوجوان کا نام دریافت کیا تو اس نے اپنے مخصوص انداز میں ‘ بدرالدین جمال الدین قاضی’ بتایا۔ گرو دت نے بے ساختہ کہا کہ اتنا بڑا نام، تم نے مجھے شرابی بن کر متاثر کیا ’ اسی لیے آج سے تمہارا نام جانی واکر ہے اور تم میری فلم ‘ بازی ’ میں کام کررہے ہو۔ بدرالدین سے جانی واکر بننے والے اس نوجوان کا خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔ جسے من چاہی خواہش پوری ہونے کا موقع مل گیا۔ انیس سو اکیاون میں آنے والی فلم ‘ بازی ’ میں جانی واکر کا مختصر سا کردار تھا، لیکن انہوں نے اس میں دل جیت لیے اور یہیں سے شروع ہوا جانی واکر کی کامیڈی سے بھری بس کا نیا سفر
ایک عام سا غریب کنڈیکٹر، گرو دت کا من پسند بن گیا۔ جنہوں نے آنے والی فلموں میں جانی واکر سے بھرپور مزاحیہ اداکاری کروائی۔ دونوں کی دوستی کا آغاز ہوا تو کئی لاجواب تخلیقات پردہ سمیں کی زینت بنیں۔ کہا جاتا ہے کہ گرو دت ’ جانی واکر کو اسکرپٹ تھماتے ہوئے کہتے کہ اگر وہ ان مکالمات سے زیادہ اچھا بول سکتے ہیں تو بلا ججھک بولیں۔
گرو دت نے اپنی ابتدائی فلموں آر پار، پیاسا، جال اور باز میں خاص طور پر جانی واکر کے لیے کردار لکھوائے۔ جانی واکر کا مخصوص لب و لہجہ ہوتا، وہ چہرے کے بنتے بگڑے تاثرات اور باڈی لینگوئج سے جاندار کامیڈی کرتے۔ وہ صرف مزاحیہ اداکاری تک محدود نہیں تھے بلکہ ان پر خاص طور پر گیت بھی فلمائے جاتے۔ان پر فلمائے گئے گانوں نے ان کی شہرت کو اور نئی پہچان دی۔ جیسے ‘ پیاسا’ کا ‘ سر جو تیرا چکرائے دل ’ یا پھر ‘ سی آئی ڈی’ کا ‘ اے دل مشکل ہے جینا یہاں ’ یا پھر ‘ مسٹر اینڈ مسز ففٹی فائیو ’ کا چلبلا سا گانا ‘ جانے کہاں میرا جگر گیا جی ’ اسی طرح ‘ مدھومتی’ کا ‘ جنگل میں مور ناچا کسی نے نہ دیکھا’ یا پھر ‘ نیا دور’ کا ‘میں بمبئی کا بابو نام میرا مستانہ’ یا پھر شادی بیاہ کے موقع پر بجایا جانے والا مشہور گیت ‘میرا یار بنا ہے دلہا’ یا پھر ‘ دور کی آواز ’ کا ‘ ہم بھی اگر بچے ہوتے نام ’ ۔۔اس بات کا سہرہ بھی محمدرفیع کو جاتا ہے کہ انہوں نے جانی واکر کو ذہن میں رکھ کر چلبلے سے شرارتوں سے بھرے کئی گیت متاثر کن انداز میں گنگنائے۔
جانی واکر نے بالی وڈ کے سبھی بڑے اداکاروں کے ساتھ کام کیا لیکن کبھی بھی وہ کسی سے اپنے کردار کی وجہ سے الجھے نہیں۔ انتہائی ملنسار اور ہنس مکھ شخصیت کے حامل جانی واکر ہر کسی کو اپنا دوست بنالیتے، سیٹ پر شگوفے چھوڑتی گفتگو سے خوب محفلیں سجاتے۔ انہیں وہی مقام ملتا جو ہیرو کو حاصل تھا۔ مقبولیت اور شہرت کا یہ عالم تھا کہ انیس سو پچپن میں ان کی تیرہ فلمیں ریلیز ہوئیں جس کے بعد وہ ہر سال اوسطاً دس فلموں میں کام کرتے۔ انیس سو چھپن میں تو ان کے نام پر فلم ‘ جانی واکر’ تک تخلیق کی گئی۔ جانی واکر کو یہ اعزاز بھی حاصل رہا کہ دوسروں کے چہروں کو کھکھلانے کے لیے انہوں نے کبھی بھی ذومعنی مکالمات ادا نہیں کیے۔ وہ مہذبانہ انداز میں مزاحیہ جملے بازی کا مظاہرہ کرتے۔
ساٹھ کی دہائی میں جب بالی وڈ میں نئے نئے کامیڈین آرہے تھے تو جانی واکر کی فلموں کی تعداد گھٹنے لگی لیکن اس دوران بھی انہوں نے ‘ مغل اعظم ’ اور ‘ چودہویں کا چاند ’ جیسی کلاسک فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے۔ انیس سو چونسٹھ میں گرو دت کی موت کے صدمے نے جیسے انہیں توڑ کر رکھ دیا۔ جانی واکر کے لیے گرو دت ایک بہترین ہدایتکار ہی نہیں غمگسار، ہمدرد، محسن اور مخلص دوست بھی تھے۔ گرو دت کا ذکر ہوتا تو ان کی آنکھیں نم ہوجاتیں۔ بسااوقات تو وہ بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رونے لگتے۔ سب نے محسوس کیا کہ گرو دت کے چل بسنے کے بعد وہ خاموش خاموش ہوگئے۔ دھیرے دھیرے وہ فلموں میں کم کام کرنے لگے۔ یہ سلسلہ ستر سے اسی کی دہائی تک برقرار رہا۔ اب وہ فلموں میں مختصر کرداروں میں آنے لگے۔ لیکن جب بھی اسکرین پر جلوہ افروز ہوتے تو ثابت کردکھاتے کہ ان کی مزاحیہ اداکاری میں اب تک کوئی جھول نہیں آیا۔کم فلموں میں کام کرنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ اسٹوڈیوز یا پرڈویوسرز کے پاس چکر لگانے سے کتراتے تھے۔ کوئی بلا لیتا تو کام کرلیتے۔خود سے کبھی بھی یہ فرمائش نہیں کرتے کہ انہیں فلم میں کام دیا جائے۔
جانی واکر خود کو ‘مہم جو’ قرار دیتے، جس نے کامیڈی کی بلندو بالا پہاڑی کو سر کرلیا تھا اور اب بیٹھ کر یہ دیکھ رہے ہوتے کہ کون اب یہ کام کررہا ہے۔ دھیرے دھیرے وہ گھر تک ہی محدود ہوگئے تھے۔ انیس سو اٹھاسی میں انہوں نے اسماعیل مرچنٹ کی انگریزی زبان کی فلم ‘ دی پرفیکٹ مرڈر’ میں بھی کردار نبھایا اور پھر چڑھتے سورج کی پوجا کرنے والے بالی وڈ نے انہیں کم و بیش بھلا ہی دیا مگر اس کا کبھی بھی جانی واکر نے کوئی ملال یا رنج کا اظہار نہیں کیا۔ نغمہ نگار اور ہدایتکار گلزار اور کمل ہاسن’ گرو دت کے بعد ان کے فن کے معترف رہے۔ جو جانی واکر کی فلمی خدمات کو فراموش نہ کرسکے۔ انیس سو اٹھاسی میں کمل ہاسن کی ڈائریکشن میں ‘چاچی چار سو بیس’ ریلیز ہوئی تو جانی واکر اس فلم میں گلزار اور کمل ہاسن کے بے حد اصرار پر میک اپ آرٹسٹ کے روپ میں پرستاروں کو نظر آئے۔ بدقسمتی سے یہ مووی ان کے کیرئیر کی آخری ثابت ہوئی۔
بہت کم لوگ اس بات سے واقف ہیں کہ جانی واکر، اندور میں کئی مستحق گھرانے کی کفالت بھی کرتے رہے ہیں۔ کامیڈین نے ماضی کی مشہور اداکارہ شکیلہ کی چھوٹی بہن نور سے بیاہ رچایا‘ نور خود بھی کئی فلموں میں جانی واکر کے ساتھ کام کرچکی ہیں۔ اس رشتے کی مخالفت میں شکیلہ پیش پیش رہیں۔ جانی واکر کے بیٹے ناصر خان نے بھی فلموں اور ڈراموں میں کام کیا لیکن وہ مقام نہ پاسکے جو والد کو ملا۔کیسی عجیب بات ہے کہ انتیس جولائی دو ہزار تین کو دنیا سے منہ موڑنے والے اس اداکار کا نام شراب کی برانڈپر رکھا گیا لیکن جانی واکر نے زندگی میں کبھی بھی مے نوشی نہیں کی