شیخ حسینہ کی قیادت میں بنگلہ دیشی حکومت کی 5 اگست 2024 کو بے دخلی نے اکثریت مبصرین کو حیران کر دیا۔ پندرہ سال اقتدار میں رہنے، اور مستحکم اقتصادی ترقی اور انسانی ترقی کے اشاریوں میں بہتری کے ساتھ، حسینہ کا اقتدار محفوظ سمجھا جارہا تھا۔ یہ سچ ہے کہ انتخابات میں کم ٹرن آؤٹ، (تازہ ترین انتخابات کو صرف سات ماہ گزرے ہیں) اور سیاسی مخالفین کے ساتھ جبری سلوک نے ان کی حکومت کی حقیقی مقبولیت اور قانونی حیثیت کے بارے میں سوالات اٹھا دیے تھے، پھر بھی ان کے دور اقتدار کا خاتمہ تیز بھی تھا اور غیر متوقع بھی۔
کسی بھی بڑی تبدیلی کی طرح، حسینہ کے اقتدار کے زوال کی متعدد وجوہات ہیں، لیکن ایک بنیادی مسئلہ نوجوانوں کی بے روزگاری ہے۔ رواں سال جون میں، بنگلہ دیش کی سپریم کورٹ نے 1971 میں بنگلہ دیش کی جنگ آزادی میں آزادی پسند جنگجوؤں کی اولادوں کے لیے نوکریوں کا 30 فیصد متنازعہ کوٹہ بحال کر دیا۔ اس کوٹے کو 2018 میں ختم کر دیا گیا تھا اور اور اسے وسیع پیمانے پر سرپرستی کے ایک کرپٹ نظام کے طور پر دیکھا گیا تھا جس نے حکومت کے قریبی لوگوں کو نہ صرف ملازمتیں حاصل کرنے بلکہ بیوروکریسی پر بھی غلبہ حاصل کرنے کا موقع دیا۔
نوجوانوں کی بے روزگاری پورے جنوبی ایشیا میں ایک چیلنج ہے
بنگلہ دیش کی صورتحال ملکی اعتبارسے منفرد خصوصیات رکھتی ہے، لیکن نوجوانوں کی بے روزگاری صرف بنگلہ دیش نہیں پورے جنوبی ایشیا میں ایک مسئلہ ہے۔ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے ورلڈ ایمپلائمنٹ اینڈ سوشل آؤٹ لک کے مطابق، 2022 میں جنوبی ایشیا میں 15-24 سال کی عمر کے 31.7 فیصد لوگ روزگار، تعلیم یا تربیت میں موجود نہیں تھے۔ یہ اعداد و شمار یہ ظاہر کرتے ہیں کہ واحد سب سے بڑا شعبہ جس میں جنوبی ایشیائی ‘ برسرروزگار’ ہیں وہ زراعت ہے، جو اکثر بے روزگاری یا دوسرے شعبوں میں مواقع کی کمی کی نشاندہی کرتا ہے۔
یہاں تک کہ ہندوستان اور بھوٹان کی نسبتاً مستحکم معیشتیں بھی دباؤ کا شکار ہیں۔ کویڈ 19 کے بعد نسبتاً اچھی بحالی کے باوجود، بھوٹان میں روزگار کی تلاش میں آسٹریلیا جیسی جگہوں پر نوجوانوں کی نقل مکانی دیکھی جا رہی ہے، اور دیہی آبادی میں تیزی سے کمی کی وجہ سے گنگٹونگ یا خالی گاؤں کی اصطلاح نے جنم لیا ہے۔ ہندوستان کی حکومت، جو خود کو دنیا کی تیزی سے ترقی کرنے والی بڑی معیشت کے طور پرپیش کرتی ہے، کو جون میں ایک جھٹکا لگا، جب حکومتی اتحاد کو عام انتخابات میں تقریباً 60 نشستوں کا نقصان ہوا، جس کی بڑی وجہ ملازمتوں کی کمی پر مایوسی اوردیہی علاقوں کی ناراضگی تھی۔
اس مسئلے کا ایک حصہ یہ ہے کہ زرعی شعبہ وہ شعبہ ہے جس کو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات، جیسے کہ غیرمتوقع بارش، خشک سالی، سیلاب، نئے کیڑوں اور بیماریوں سے سب سے زیادہ خطرہ ہے۔ پورے جنوبی ایشیا میں، لوگ شہری علاقوں یا غیر ملکوں کے لئے دیہی علاقوں سے بھاگ رہے ہیں۔ بنگلہ دیش میں 10.47فیصد گھرانوں نے رپورٹ کیا کہ ان کے خاندان میں سے کم از کم ایک فرد نے پچھلے پانچ سالوں میں ملک کے اندر یا اس سے باہر ہجرت کی ہے۔ ان میں سے بہت سے غریب خاندان ایسے ہیں جو آب و ہوا سے پیدا ہونے والی آفات سے تباہ شدہ علاقوں کو پیچھے چھوڑ جاتے ہیں۔ ان میں سے بہت سے غریب خاندان ایسے ہیں جو موسمیاتی آفات سے تباہ شدہ علاقے چھوڑ جاتے ہیں۔ یہ مسئلہ ایک ملک کے لئے مخصوص نہیں ہے، بلکہ، نیپال سے آنے والے تارکین وطن کے لئے آفات سے تباہ شدہ کھیتوں میں واپس جانا ناممکن ہے۔ بڑے پیمانے پر ہونے والی یہ ہجرت نہ صرف ان ممالک کو متاثر کرتی ہے جہاں سے تارکین وطن آتے ہیں بلکہ میزبان ممالک بھی اس سے متاثر ہوتے ہیں۔ انٹرنیشنل آرگنائزیشن آن مائیگریشن نے اس سال کے شروع میں بتایا کہ یورپ جانے کے لیے بحیرہ روم کو عبور کرتے ہوئے مرنے والے تارکین میں سے 12 فیصد بنگلہ دیشی تھے۔
خبروں، تجزیوں اور رپورٹس کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
زرعی بحران اس مسئلے کا صرف ایک حصہ ہے۔ مسئلے کا دوسرا حصہ یہ ہے کہ تباہی سے بھاگنے والوں کے لئے ملازمتیں بہت کم ہیں۔ اگر کوئی سبز مستقبل موجود ہے تو اس سے وابستہ نوکریاں ابھی تک جنوبی ایشیا میں نہیں پہنچی ہیں۔ حال ہی میں معزول بنگلہ دیشی حکومت نے اپنے مجیب کلائمیٹ پراسپیرٹی پلان کی بڑی تشہیر کی تھی، جس کے تحت عدم مساوات کو کم کرنا، ملازمتیں پیدا کرنا اور خوشحالی کو برقرار رکھنا تھا، لیکن یہ اپنے وعدے پر پورا نہ اتر سکا۔
جنوبی ایشیا کو ایک گرین ڈیل کی ضرورت ہے
جنوبی ایشیا، ایک ایسا خطہ جو ایک چوتھائی انسانیت کا گھر ہے اور جس میں فی کس آمدنی عالمی اوسط کا چھٹا حصہ ہے، اگرعالمی سطح پر یک آواز میں بولنے کے قابل ہو جاتا ہے، تو اسکا واحد سب سے بڑا مطالبہ گرین ڈیل کا ہوگا، جو کہ ترقی اور توانائی کی منتقلی کو آسان بناۓ گا۔ بدقسمتی سے، اس بات کا بہت کم امکان ہے کہ جنوبی ایشیا کی حکومتیں یہ کام سالانہ کانفرنس آف پارٹیز، یا کوپ (سی او پی) میں کریں گی، جو کہ یو این فریم ورک کنونشن آن کلائمیٹ چینج کے تحت منعقد ہوتی ہے، جہاں حکومتیں موسمیاتی تبدیلی کے عالمی چیلنج سے نمٹنے کے لئے آگے بڑھنے کے راستے پر بات چیت کرتی ہیں۔
اس سال کی کانفرنس، کوپ 29، صرف چار ماہ کی دوری پر ہے، اور خطے کے دو ممالک، افغانستان اور میانمار، دو ناقابل قبول حکومتوں کے زیر انتظام ہیں جنہیں ایسے موقعوں پر مدعو نہیں کیا جاتا۔ سری لنکا اب بھی 2022 میں اپنے معاشی زوال سے بحالی کی تک و دو میں ہے، اور پاکستان اب بھی 2024 کے اوائل میں ہونے والے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کی وجہ سے سیاسی بحران کا شکار ہے جس کے ختم ہونے کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔ مزید برآں، سرحدی عداوتوں نے ساؤتھ ایشین ایسوسی ایشن آف ریجنل کوآپریشن کی تنظیم کو اس قدر معذور کر دیا ہے کہ 2014 کے بعد سے کوئی علاقائی سربراہی اجلاس منعقد نہیں ہوا۔ جنوب ایشیائی حکومتوں کے کسی بھی معاملے پر اکٹھے بولنے کا تقریباً کوئی امکان نہیں ہے۔
شاید سب سے اہم بات، جیسا کہ مائیکل کوگل مین نے اس سال فروری میں لکھا تھا، خطے کی کسی بھی سیاسی جماعت نے اس سال پاکستان، بھارت، بھوٹان، سری لنکا اور بنگلہ دیش میں ہونے والے انتخابات کے دوران موسمیات سے متعلق واضح پیغام نہیں دیا۔ اس کے بجائے، وہ بنیادی ڈھانچے پر مبنی ترقی پر توجہ مرکوز کرتے ہیں، اور ان میں سے بہت سے، بنگلہ دیش کی شیخ حسینہ کی طرح، اس حوالے سے اپنی گزشتہ کارکردگی کی بنیاد پر اپیل کرتے رہے۔ ایسا کرتے ہوئے، انہوں نے اس خطے میں زرعی مسائل اور روزگار کے بحران کو نظر انداز کیا۔ حسینہ واجد کی بے دخلی سے ان تمام حکومتوں کی آنکھیں کھل جانی چاہییں اور انکو یہ سمجھنا چاہیے کہ ان کی یہ حکمت عملی ناکام ہے۔ انسانیت کا ایک چوتھائی حصہ غربت میں نہیں رہ سکتا، جو موسمیاتی آفات کی وجہ سے روز بروز مزید خطرے کا شکار بنتا جا رہا ہے اور جس کے پاس کسی بہتر مستقبل کی امید نہیں۔ وہ بغاوت کریں گے اور اگر دنیا ان مسائل کو اسی طرح نظر انداز کرتی رہی تو یہ بغاوتیں دنیا کو حیران کر دیں گی۔