حالیہ انتخابات کے بعد جب نئے نمائندوں نے ڈاکو راج کے خاتمے کے بڑے دعوے کیے، عوام نے امید کی تھی کہ یہ مسئلہ جلد حل ہو گا۔ مگر انتخابات کے بعد کی صورت حال نے واضح کیا کہ ڈاکو راج اب بھی ایک سنگین مسئلہ ہے۔ ضلع کشمور سے لے کر کراچی تک ڈاکو راج کی جڑیں بہت گہری ہیں اور اس کے خاتمے کے لیے سنجیدہ کوششوں کی ضرورت ہے۔ اس رپورٹ میں ہم ڈاکو راج کے تاریخی پس منظر، موجودہ صورت حال اور حالیہ انتخابات کے بعد کی تبدیلیوں کا جائزہ لیں گے۔
عوامی سطح پر ڈاکو راج کے خلاف شدید مایوسی اور غصہ پایا جاتا ہے۔ 45 سالہ سماجی رہنما آفتاب خان باجکانی نے کہا، 'میں نے ووٹ تو دیا، لیکن مجھے یقین نہیں کہ حالات واقعی بدلیں گے۔ کچے میں برسوں سے آپریشنز ہو رہے ہیں، لیکن ڈاکوؤں کی گرفتاری یا امن کی بحالی کا کوئی خاص اثر نظر نہیں آیا۔ ہر نمائندہ وعدے تو کرتا ہے مگر زمینی حقائق مختلف ہیں'۔
55 سالہ محمد عثمان، ایک کاشتکار، نے کہا، 'میں نے اس بار ووٹ سوچ سمجھ کر دیا ہے اور میرا فیصلہ کچے میں امن کی بحالی سے جڑا ہے۔ سالوں سے یہاں کے عوام ڈاکوؤں کے ظلم و ستم کا شکار ہیں اور میں چاہتا ہوں کہ وہ دن ختم ہوں جن میں لوگ خوف کے سائے میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں'۔
ایڈووکیٹ عبدالغنی بجارانی نے کہا، 'حالیہ انتخابات کے بعد صورت حال مزید پیچیدہ ہوگئی ہے۔ نئے منتخب نمائندوں نے جرائم کے خاتمے کے بڑے دعوے کیے تھے، مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ مسئلہ ابھی تک جوں کا توں موجود ہے۔ سیاسی اثر و رسوخ رکھنے والے افراد اب بھی ان ڈاکوؤں کے ساتھ خفیہ تعلقات رکھتے ہیں، جس کی وجہ سے ان کے خلاف کارروائی ممکن نہیں ہو رہی۔ انتخابات کے بعد یہ توقع تھی کہ نئے حکومتی نمائندے امن و امان کو بحال کریں گے، لیکن بدقسمتی سے یہ مسئلہ ابھی تک حل طلب ہے'۔
ایم این اے سردار زادہ علی جان مزاری نے کہا، 'ہم نے الیکشن سے پہلے وعدہ کیا تھا کہ کچے میں امن بحال کیا جائے گا اور اس مقصد کے لیے فوری طور پر کارروائیاں شروع کی ہیں۔ پولیس اور رینجرز کے ساتھ مل کر ایک جامع پلان ترتیب دیا گیا ہے تاکہ ڈاکوؤں کا صفایا کیا جا سکے۔ ہم عوام کی جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنائیں گے'۔
ایم این اے میر شبیر علی خان بجارانی نے کہا، 'ہم تسلیم کرتے ہیں کہ کچے میں حالات پیچیدہ ہیں اور ماضی میں کیے گئے اقدامات کے خاطر خواہ نتائج نہیں ملے۔ تاہم، اس بار ہم جدید ٹیکنالوجی اور بہتر حکمت عملی کا استعمال کر کے ڈاکوؤں کے خلاف سخت کارروائی کریں گے۔ عوام کی مایوسی بجا ہے، لیکن ہم پختہ عزم کے ساتھ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں'۔
خبروں، تجزیوں اور رپورٹس کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
سماجی کارکن ڈاکٹر عارف خان نے کہا، ' ڈاکو راج کے پیچھے بنیادی عوامل میں غربت، بے روزگاری، اور تعلیمی سہولتوں کی کمی شامل ہیں۔ ان مسائل کے حل کے بغیر ڈاکو راج کا خاتمہ مشکل ہے۔ یہ ضروری ہے کہ حکومت ناصرف سکیورٹی کے اقدامات کرے بلکہ سماجی اور اقتصادی اصلاحات بھی عمل میں لائے تاکہ نوجوانوں کو جرائم کی طرف مائل ہونے سے روکا جا سکے'۔
پروفیسر شائستہ خان نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا، 'قانونی نظام میں موجود خامیوں اور نظامِ انصاف کی کمزوریوں کی وجہ سے ڈاکو راج قائم ہے۔ یہ ضروری ہے کہ قوانین میں اصلاحات کی جائیں اور عدلیہ کو مضبوط بنایا جائے تاکہ جرائم پیشہ عناصر کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جا سکے'۔
ایس ایس پی بشیر احمد بروہی نے کہا، 'ہمیں ضلع کشمور اور اس کے ملحقہ علاقوں میں ڈاکوؤں کے خلاف کارروائی کے لیے غیر معمولی چیلنجز کا سامنا ہے، لیکن قانون نافذ کرنے والے ادارے اس مسئلے کے حل کے لیے پرعزم ہیں۔ ہمیں علم ہے کہ ان مجرمانہ گروہوں کے پیچھے مضبوط نیٹ ورک اور سیاسی پشت پناہی شامل ہیں، لیکن ہم ان کے خلاف سخت ایکشن لینے کے لیے تیار ہیں'۔
27 جولائی 2023 کو کندھ کوٹ میں وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے ڈاکو راج کے بارے میں ایک اہم بیان دیا۔ انہوں نے کہا، 'مجھے سمجھ نہیں آتا کہ یہ ڈاکو اتنا جدید اور ملٹری اسلحہ کہاں سے حاصل کر لیتے ہیں۔ یہ انتہائی سنگین مسئلہ ہے کہ وہ لوگ جو ریاستی رٹ کو چیلنج کرتے ہیں، اس طرح کے خطرناک ہتھیاروں تک رسائی حاصل کر لیتے ہیں۔ ہمیں اس بات کی تحقیقات کرنی ہوں گی کہ یہ اسلحہ کہاں سے آ رہا ہے اور کون ان مجرمانہ عناصر کی پشت پناہی کر رہا ہے۔ ہم اس مسئلے کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے ہر ممکن اقدامات کریں گے اور عوام کے تحفظ کو یقینی بنائیں گے'۔
ضلع کشمور سے کراچی تک ڈاکو راج ایک پیچیدہ مسئلہ ہے جو کئی دہائیوں سے قائم ہے۔ حالیہ انتخابات کے بعد عوام اور ماہرین کی توقعات کے برعکس یہ مسئلہ ابھی بھی حل طلب ہے۔ وزیر اعلیٰ سندھ، عوامی نمائندوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے بیانات اس بات کا اشارہ دیتے ہیں کہ حکومت اور متعلقہ اداروں کو اس مسئلے کے حل کے لیے سنجیدگی سے اقدامات کرنا ہوں گے۔ اگرچہ مشکلات بہت زیادہ ہیں، لیکن اگر صحیح حکمت عملی اپنائی جائے اور عوامی حمایت حاصل کی جائے تو امید کی جا سکتی ہے کہ ڈاکو راج کا خاتمہ کیا جا سکے گا۔