آئینی دستاویز مقدس ترین ہوتی ہے کہ ریاست کا وجود اس ستاویز سے وابستہ ہوتا ہے۔ جب آئین کا تقدس پامال ہو جائے تو ریاست بکھر جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آئین کو مقدس ترین حیثیت دی جاتی ہے۔ کسی بھی ریاست میں واحد آئین ہی ہوتا ہے جو ریاست کے ستونوں اور عوام کے درمیان رشتے کو استوار رکھتا ہے۔ جغرافیائی سرحدیں بھی آئین ہی کے تحت قائم رہتی ہیں۔ مہذب معاشرے آئین کے تقدس کے باعث ہی مہذب کہلاتے ہیں۔ امن و استحکام اور ترقی کی منازل بھی آئینی اصولوں پر چل کر ہی حاصل کی جاسکتی ہیں۔
جن معاشروں میں آئین کا تقدس نہیں ہوتا ہے۔ وہ معاشرے آج کا پاکستان ہوتے ہیں۔ حیرانگی تو اس بات پر ہے کہ چیخنے چلانے والے دانشور بھی آئین کو محض کاغذ کا پلندہ قرار دے رہے ہیں۔
حسن نثار فرما رہے تھے کہ آئین انسانی ہاتھوں سے بنایا گیا ہے۔ کوئی آسمانی صحیفہ نہیں ہے۔
جناب حسن نثار! سے دست بدستہ گزارش ہے کہ یہی بدترین صورتحال ہے کہ جب خود بنائے گئے آئین کی پامالی کی جاتی ہے۔ جب آپ اپنے ہی اصولوں کو روند دیتے ہیں۔ جب آپ اپنے ہی بچے کھا جاتے ہیں۔ آج اپنے بنائے آئین کا تقدس پامال کر کے ملک کی بنیادیں کھوکھلی کی جا رہی ہے۔ جب تقدس باقی نہیں رہے گا تو پھر 2 سال کے بچوں کو جنسی درندگی کا نشانہ بنا کر قتل کرنے کے واقعات تواتر سے ہوں گے۔ عدم تحفظ بڑھے گا۔
آپ کو معلوم ہے کہ عدم تحفظ کی صورتحال میں کیا ہوتا ہے۔ عوام کیا کہتے ہیں اور کیا کرتے ہیں۔ آپ جیسی دانش رکھنے والے لوگ ہی تباہی و بربادی کا باعث بنتے ہیں، جو اس بات کی تبلیغ کرتے ہیں کہ آئین انسان نے خود بنایا ہے تو اس کی توقیر کیا ہے۔
محترم حسن نثار صاحب! کبھی کمہار کی دکان پر جانا اور محض اتنا کہنا کہ یہ برتن اچھے نہیں بنائے ہیں۔ آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ ہاتھ کی محنت سے بنے برتن کی اہمیت و تقدس کیا ہے۔ آپ نے تو آئین کو ایک مجرم کے مقابلے ہیچ بنا کر پیش کر دیا ہے۔ کشمیر ہاتھ سے گیا۔ بنگلہ دیش بن گیا مگر آپ پھر بھی آئین پر جرم کو مقدم قرار دے رہے ہیں۔ محترم حلال رزق کمانے والے تو اس قدر درباری نہیں ہوتے ہیں۔ انہیں تو کچھ کھونے کا اتنا خوف نہیں ہوتا ہے۔ حق پرست تو بیلی پور کے چھن جانے کا خوف نہیں رکھتے ہیں۔
بدترین دانشور اور بدترین معاشرے اسی وقت بنتے ہیں جب اپنے بنائے آئین و اصولوں کی خلاف ورزی کی جاتی ہے۔ یہ صورتحال زیادہ خطرناک ہے۔ ایک طرف تو طاقتور طبقہ خود کو آئین سے بالاتر قرار دینے پر ریاست کی بنیاد ہلا دینے پر آمادہ نظر آتا ہے اور دوسری جانب ان کے نمک خوار دانشور نمک حلالی کے لئے ایسی تشریحات کر رہے ہیں کہ آئین کے بجائے طاقت مقدس بھی ہے اور جائز بھی ہے۔ جس کا صاف مطلب ہے کہ درباری دانش رکھنے والوں کو ملک کی ضرورت ہے اور نہ آئین کی ضرورت ہے۔ انہیں محض اپنے محل بچانے کی فکر ہے۔
صدسلام اور خراج تحسین ہے ان لوگوں کے لئے جو دانشور تو نہیں ہیں مگر جرات و بہادری کے ساتھ آئین کے ساتھ کھڑے ہیں اور آئین کے دفاع میں لب کشائی کر رہے ہیں۔ آئین بیزار گماشتوں کے حملوں کا سامنا بھی کر رہے ہیں۔