انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ ( آئی ایم ایف) کی جانب سے شرط رکھی گئی ہے کہ فنانس بل کو پارلیمنٹ سے پاس کروایا جائے، آرڈیننس کے ذریعے اسے تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ لیکن حکومت اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ اسے پاس کروا سکے۔
نیا دور ٹی کے پروگرام ''خبر سے آگے'' میں ملکی صورتحال پر بات کرتے ہوئے مزمل سہروردی کا کہنا تھا کہ حکومت اب تک تین مرتبہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن سے شکست کھا چکی ہے۔ حفیظ شیخ کے معاملے میں اور بعد ازاں پارلیمنٹ میں دو ایسے بل پیش کئے گئے جن میں حکومت کے نمبر کم نکلے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ منی بجٹ جادوئی طاقت کے بغیر پارلیمنٹ سے پاس نہیں ہو سکے گا۔ ارکان کو لانا پڑے گا جس طرح پچھلے مشترکہ اجلاس میں اراکین کہہ رہے تھے کہ ہم آئے نہیں بلکہ ہمیں لایا گیا جبکہ اتحادیوں نے کہا تھا کہ ہم مانے نہیں، ہمیں منایا گیا ہے۔
انہوں نے بار بار اپنی بات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ یہ منی بجٹ بھی گن پوائنٹ پر ہی پاس کروانا پڑے گا، وگرنہ یہ پاس نہیں ہو سکتا۔ یہ معاملہ اتنا خطرناک ہے کہ اگر یہ پاس نہیں ہوتا تو ختم ہو جائے گی۔
مزمل سہروردی کا کہنا تھا کہ سوال یہ ہے کہ کیا فنانس بل پر اسٹیبلشمنٹ حکومت کی مدد کرے گی کیونکہ یہ پاکستان کی بقا کا معاملہ ہے۔ یہ ایک ارب ڈالر کی بات نہیں، ہمیں اگلے برس 29 بلین ڈالرز چاہیں۔ اگر آئی ایم ایف کا کریڈٹ نوٹ ہوگا تو ہم اپنے بانڈز بھی بیچ سکیں گے اور کمرشل بینکوں سے قرض کا حصول بھی ممکن ہوگا۔ یہ ایک بلین ڈالر باقی 28 بلین ڈالرز اکھٹے کرنے کی چابی ہے۔ اگر یہ نہ ہوا تو باقی رقم اکھٹا کرنا پاکستان کیلئے مشکل ہو جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ صرف ایک اور صورت میں یہ بل پاس ہو سکتا ہے کہ کوئی اپوزیش جماعت اجلاس کا بائیکاٹ کر دے تو حکومت خود اسے پاس کرا سکتی ہے لیکن اگر اپوزیشن مطالبہ کرتی ہے کہ اپنے ووٹ پورے کریں تو حکومت کو یہ کرنا پڑے گا۔
خیبر پختونخوا الیکشن کے نتائج پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی نے اپنے بہترین اور مضبوط امیدواروں کو ٹکٹ دیئے تھے۔ تاہم اس مرتبہ وہ ''جادوئی طاقت'' کہیں غائب تھی، جو چوں چوں کے مربے کو اکھٹا رکھتی تھی۔ لوگ آزاد اور اپنی سیاست کو خود دیکھ رہے تھے۔
عنبر شمسی کا کہنا تھا کہ ماضی میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ خیبرپختونخوا کی سیاست کو اتنی باریک بینی سے دیکھا گیا ہو، جیسا اس مرتبہ بلدیاتی انتخابات کے موقع پر ہوا ہے۔ ہمارے یہاں سیاسی جماعتوں کی مقبولیت اور ان کی کاردکرگی ایسے ہی انتخابات کے ذریعے واضح ہوتی ہے۔ کہا جاتا تھا کہ خیبر پختونخوا کی عوام کسی جماعت کو دوسری مرتبہ اقتدار میں آنے کا موقع نہیں دیتے لیکن پی ٹی آئی نے یہ روایت 2018ء کے انتخابات میں توڑ دی تھی۔ لیکن اس مرتبہ اسے بلدیاتی انتخابات میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کی بنیادی وجہ مہنگائی تھی۔
مرتضیٰ سولنگی کا کہنا تھا کہ مقامی حکومتوں کے انتخابات آزادانہ اور منصفانہ نہیں ہوئے۔ جتنی پری پول دھاندلی خیبر پختونخوا کے ضمنی الیکشن میں ہوئی، اس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ پہلے ان کا انعقاد کرانے میں ہچکچاہٹ سے کام لیا گیا۔ یہ تو سپریم کورٹ کا حکم تھا جس کی وجہ سے انھیں مجبوراً انتخابات کروانا پڑے۔
انصار عباسی کی خبر پر تجزیہ کار مزمل سہروردی کا کہنا تھا کہ یہ عجیب مصیبت ہے اس ملک میں کہ نام نہ لو تو مصیبت ہے، نام لے لو تو مصیبت۔ پہلے کہتے تھے نام نہیں لیں۔ اب کہہ رہے ہیں کہ نام لے کر بات کریں۔ نیا دور کے پروگرام خبر سے آگے میں بات کرتے ہوئے مزمل سہروردی نے کہا کہ جب گذشتہ برس مسلم لیگ ن کے سربراہ نواز شریف نام لے رہے تھے تو رضا رومی صاحب ہمیں کہتے تھے کہ نام نہ لیں۔ رضا رومی نے برجستگی سے جواب دیا کہ مشرقی روایات کا خیال رکھیں۔ نام نہ لیں۔
مرتضیٰ سولنگی نے اس موقع پر ازراہِ مذاق کہا کہ جی آپ لوگ تو سب زرداری صاحب کے خلاف ہیں اس لئے میں ان کا دفاع کروں گا۔ جن صاحب نے انصار عباسی کو کہا ہے کہ زرداری صاحب نام لیں، وہ پہلے اپنا نام لیں، تو جن صاحب نے زرداری صاحب سے بات کی ہے، ان کا نام میں بتا دوں گا۔
عنبر شمسی کا کہنا تھا کہ پاکستان میں کون نہیں ہے جو اسٹیبلشمنٹ سے بات کر رہا ہو؟ ہر جماعت ان سے بات کرتی ہے۔ صرف پیپلز پارٹی ہی تو نہیں کرتی۔ مزمل سہروردی نے انہیں جواب دیا کہ اس تبصرے کو الٹا کریں تو بنتا ہے کہ کون سی جماعت ہے جس سے اسٹیبلشمنٹ بات نہیں کر رہی۔