بدھ کو واشنگٹن میں پاکستانی میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ افغان طالبان کو بتا دیا ہے کہ اگر ٹی ٹی پی کو نہ روکا تو ہمارے تعلقات ٹھیک نہیں رہیں گے۔ اگر افغان طالبان کو شدت پسندوں کے خلاف آپریشن میں مدد کی ضرورت ہو تو فراہم کریں گے۔ہم چاہتے ہیں کوئی پاکستانی شہری دہشتگردی کا شکار نہ ہو اور نہ ہی کوئی افغان یا بھارتی شہری اس کا شکار بنے۔ افغانستان ہمارا ہمسایہ ہے۔ ان سے ہمیں بات چیت کرنی ہوگی۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ حالیہ دنوں میں سرحد پر ہونے والے واقعات اور بنوں کے واقعات تشویشناک ہیں تاہم دونوں مواقع پر ہماری سکیورٹی فورسز نے بڑی بہادری سے مقابلہ کیا اور صورت حال پر قابو پایا۔
انہوں نے افغانستان کی حکومت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اس کو وہاں کی سرزمین سے کام کرنے والی ٹی ٹی پی سمیت دوسرے گروپس کو روکنے کی صلاحیت اور طاقت کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ امریکہ کی طرح پاکستان کی افغانستان پالیسی میں بہتری کی گنجائش ہے اور ہمیں اس ضمن میں سنجیدہ ہونے کی ضرورت ہے کہ ہم کیا کرنے جا رہے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ انسداد دہشت گردی کیلئے امریکہ کے ساتھ تعاون پرکوئی نیا معاہدہ نہیں ہوا۔افغانستان کے فنڈزکی بات طالبان کیلئے نہیں افغان عوام کیلئے کرتے ہیں۔طالبان نے امریکہ اوردنیاسےبھی شدت پسندوں کےخلاف کارروائی کےوعدےکیے۔
بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ جہاں تک افغانستان کی صورت حال کا تعلق ہے تو میرا نہیں خیال کہ کوئی ایسی صورت حال دیکھنا چاہتا ہے اور وہ عرصے سے کہتے آئے ہیں کہ پالیسیوں پر نظرثانی کرنی چاہیے۔ کوئی بھی ملک نہیں چاہتا کہ افغانستان دنیا میں دہشتگردی کا مرکز بن جائے۔ خطے کا امن افغانستان میں امن سے مشروط ہے.
’میں نے یہ تب بھی کہا تھا جب ہم اپوزیشن میں تھے اور اب حکومت کا حصہ ہوتے ہوئے بھی کہتا ہوں۔ میرے خیال میں ایسے معاملات سے نمٹنے کے لیے جامع طریقہ کار کی ضرورت ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ اس وقت ایک آسان راستہ افغانستان کی حکومت کے ساتھ تعاون کا ہے تاکہ اس ایشو سے نمٹا جا سکے۔ ’یہ میرا ترجیحی راستہ ہے مگر اس مسئلے سے نمٹنے کا صرف یہی واحد راستہ نہیں ہے۔‘