یوٹیوب پر اپنے تازہ وی لاگ میں اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ سوشل میڈیا پہ اس طرح کی خبریں چلنے لگیں کہ جس فرم کو پی ٹی آئی نے لابنگ کے لیے ہائر کیا تھا اسی نے عمران خان کی حکومت گرانے میں اہم کردار ادا کیا یعنی باب گرینیئر اور حسین حقانی اس میں ملوث تھے۔ کہانی یہ بنائی جا رہی ہے کہ ڈونلڈ لو جو امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میں ساؤتھ ایشیا کے لیے اسسٹنٹ سیکرٹری ہیں وہ دوست ہیں حسین حقانی اور باب گرینیئر کے اور اسی بنیاد پر کہا جا رہا ہے کہ ان لوگوں نے مل کر ہماری حکومت گرائی ہے۔
شیریں مزاری نے دو تین روز پہلے بیان دیا کہ جنرل باجوہ ملے ہوئے تھے حسین حقانی کے ساتھ اور امریکہ میں لوگوں کے ساتھ تا کہ عمران خان کی حکومت گرائی جا سکے۔ شیریں مزاری نے جنرل باجوہ کے ساتھ ایک میٹنگ کا حوالہ بھی دیا جس میں جنرل باجوہ نے حسین حقانی کو حکومت کی جانب سے کوئی عہدہ دلانے کی بات کی تھی۔ ان کے مطابق جنرل باجوہ اور حسین حقانی ملک دشمن ہیں۔
2011 میں جب ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن والا آپریشن کیا گیا تھا تو اس کے بعد پیپلز پارٹی کی حکومت نے امریکہ سے رابطہ کرکے کہا تھا کہ فوج کے حکومت میں آنے کا خدشہ ہے۔ میمو گیٹ سکینڈل میں حسین حقانی کا نام بھی آیا اور ان پر کیس چلا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کمیشن کے سربراہ تھے۔ تاہم ایک سال پہلے انہیں اس سے بری کر دیا گیا۔ رجیم چینج والے معاملے میں بھی حسین حقانی کا ملوث ہونا ثابت نہیں ہوا۔
امریکہ پاکستان میں حکومتیں گراتا ہے، پاکستان میں سب سے پہلے یہ بیانیہ ذوالفقار بھٹو نے بنایا تھا اور انہیں خوب پذیرائی ملی تھی۔ تب سے یہ بیانیہ پاکستان میں سیاسی مقصد کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ اس بات میں شک نہیں کہ امریکہ پاکستان اور عمران خان سے خوش نہیں تھا اور اس کی کئی وجوہات ہیں جیسے افغانستان میں طالبان کی واپسی پہ عمران خان نے بیان دیا کہ آج انہوں نے غلامی کی زنجیریں توڑ ڈالی ہیں اور اسامہ بن لادن کے بارے میں بھی انہوں نے کہا تھا کہ وہ شہید ہیں۔
اس کے علاوہ عمران خان کا روس جانا اور روس کا یوکرین کے خلاف جنگ چھیڑ دینا، عمران کا یورپی یونین کے خلاف بیان دینا اور پھر عمران کے حمایتیوں کا امریکی صدارتی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کی سپورٹ کرنا؛ یہ وہ فیکٹر تھے جن کے باعث امریکہ اور جوبائیڈن عمران خان کے ساتھ خوش نہیں تھے مگر یہ کہنا کہ امریکہ نے عمران کی حکومت گرا دی تو یہ حقیقت کے بالکل برعکس بات ہے۔
امریکہ کے پاکستان کے ساتھ بیش تر معاملات دفاعی نوعیت کے ہوتے ہیں اور اسے سول حکومتوں کو گرانے میں کوئی خاص دلچسپی نہیں ہوتی۔ پھر یہ بھی ہے کہ عمران خان امریکہ کے لیے کوئی بہت بڑا تھریٹ بھی نہیں بن چکے تھے کہ امریکہ ان کی حکومت گرانے کے لیے منصوبہ بندی کرتا۔ فلپائن کے صدر نے امریکی صدر باراک اوبامہ پر عمران خان کی نسبت کہیں زیادہ قابل اعتراض الفاظ میں تنقید کی تھی، اسی طرح ترکی کے صدر طیب اردگان کا آئے روز امریکہ کے ساتھ پھڈا رہتا ہے، امریکہ نے ان کی حکومتیں تو نہیں گرائیں۔
امریکہ ایک صورت میں پاکستان میں حکومت گرا سکتا ہے کہ وہ پاکستان کی فوج کو کہے جو دفاعی معاملات میں امریکہ پر انحصار کرتی ہے۔ مگر کیا امریکہ اس طرح پاکستانی فوج کو کہہ سکتا ہے تو اس کا جواب نہیں ہے اور اگر امریکہ اس طرح کی بات پاکستانی فوج سے کہے تو کیا پاکستانی فوج ہر بات مان لیتی ہے تو اس کا جواب بھی نہیں ہے۔
افغانستان میں طالبان کی واپسی کے بعد آئی ایس آئی چیف جنرل فیض حمید جب امریکہ گئے تو وہ بھی باب گرینیئر ہی سے ملتے رہے اور باب کے ذریعے دیگر متعلقہ لوگوں سے ان کی ملاقاتیں کروائی گئیں۔ یہ اطلاع بھی ملی ہے کہ جنرل ندیم انجم جب امریکہ گئے تو ان کی ملاقات بھی فیض حمید کے ذریعے باب گرینیئر ہی سے کروائی گئی۔
اسد مجید اس وقت امریکہ میں سفیر تھے، انہوں نے 7 مارچ کو سائفر بھیجا جو 8 مارچ کو پاکستانی حکومت کو ملا۔ اعزاز سید کے مطابق اسد مجید کے قریبی لوگ یہ کہتے ہیں کہ اسد مجید سجھتے ہیں کہ اگرچہ ڈونلڈ لو نے زبان خاصی سخت استعمال کی تھی مگر اس میں کسی سازش کو تلاش کرنا ناممکن بات تھی۔
اسد مجید نے سائفر بھیج کے سفارش کی کہ سفیر کو بلا کے ڈیمارش کیا جائے۔ اعزاز سید کا اس پر کہنا تھا کہ اسد مجید کو جب تک لگتا رہا کہ پی ٹی آئی کی حکومت رہے گی تو انہوں نے پی ٹی آئی والا مؤقف اپنائے رکھا۔ اس طرح کی نجی ملاقاتوں میں ہونے والی گفتگو کی بنیاد پہ ڈیمارش جاری نہیں کیا جاتا مگر انہوں نے ریکمنڈ کیا۔ اس کے بعد پاکستان میں حکومت بدلی اور انہیں یقین دہانی کرائی گئی کہ انہیں سیکرٹری خارجہ لگا دیا جائے گا تو انہوں نے اپنی پوزیشن تبدیل کر لی۔
تاہم عمر چیمہ کا کہنا ہے کہ اسد مجید کے مطابق سائفر بھیجنے کے بعد 8 مارچ کو ان کا شاہ محمود قریشی سے ایک بار رابطہ ہوا تھا اس کے بعد پی ٹی آئی کے ساتھ ان کا کوئی رابطہ نہیں ہوا۔ بلکہ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس کے بعد ایک مرتبہ میں پاکستان آیا اور اعظم خان کے ساتھ ملنے کی کوشش کی تو وہ مجھ سے نہیں ملے۔