اے این پی کی جانب سے قومی وطن پارٹی کو جواب آں غزل

03:03 PM, 22 Feb, 2020

سردار حسین بابک
عوامی نیشنل پارٹی کی جانب سے 10مارچ کو پختون قومی جرگے کے اعلان کے بعد دو آراء سامنے آ چکی ہیں۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں لوگ اس جرگے کو وقت کی اہم ضرورت اور پشتونوں کو درپیش مسائل کے حل کے لئے ایک عملی اقدام کے طور پر دیکھ رہے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ کئی لوگوں کے ذہنوں میں تجسس، شکوک یا شبہات جنم لے رہے ہیں جس کی وضاحت صرف ان لوگوں کو نہیں بلکہ اس خطے میں رہنے والے ہر فرد کے لئے ہم ضروری سمجھتے ہیں۔ ان اعتراضات یا شکایتوں کے جوابات سے پہلے یہ تفصیل بتانا بھی ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ عوامی نیشنل پارٹی کی جانب سے اعلان کردہ یہ پہلا یا واحد قومی جرگہ نہیں۔ اس سے پہلے 1995، 1998 اور 2007 میں عوامی نیشنل پارٹی باچا خان مرکز پشاور میں پشتونوں کو درپیش مسائل پر تمام رہنمائوں کے جرگوں کا انعقاد کر چکی ہے۔

کچھ ہی دنوں پہلے (18فروری) کو ضم اضلاع کے مسائل بارے ایک بڑی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس کو بھی ہم پختونوں کو درپیش مسائل کے حل کے لئے ایک جرگہ ہی سمجھتے ہیں۔ ہم شکریہ ادا کرتے ہیں ان تمام سیاسی جماعتوں، تحاریک، تاجر برادری، وکلا، طلبہ اور مقامی مشران کا جنہوں نے کثیر تعداد میں اس جرگے میں شرکت کی۔

اس جرگے میں دیگر جماعتوں کے علاوہ قومی وطن پارٹی کے صوبائی ترجمان کی شرکت کے لئے بھی ہم ان کی جماعت کے مشکور ہیں لیکن جناب محترم جمیل مرغز (قومی وطن پارٹی کے رہنما) کی جانب سے روزنامہ ایکسپریس (19فروری 2020) میں شائع ہونے والے ایک کالم میں ایک عظیم مقصد اور پختونوں کے اتحاد کے لئے بلائے گئے ’پختون قامی جرگہ‘ کے انعقاد، مقاصد، ایجنڈے اور نتائج بارے شکوک و شبہات کا اظہار کیا گیا ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی پہلے ہی واضح کر چکی ہے کہ ’ضم اضلاع کانفرنس‘ ہو یا ’پختون قامی جرگہ‘ اس کا واحد اور اولین مقصد پختون قوم کو درپیش مسائل پر ایک مشترکہ لائحہ عمل اور اس کے لئے مشترکہ جدوجہد کو عملی جامہ پہنانا ہے لیکن بدقسمتی سے قومی وطن پارٹی کے ایک اہم عہدیدار کی جانب سے اس کے انعقاد اور مقصد پر اعتراضات پشتون قوم کے مسائل کو مزید گھمبیر بنانے کے ساتھ ساتھ سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے علاوہ کچھ نہیں۔



وقت سے پہلے نتائج اخذ کرنا ایک خطرناک عمل ہے۔ ابھی تک اس جرگے کے لئے نکات، مطالبات اور مقاصد پر دیگر جماعتوں سے مشاورت جاری ہے اور اس کے نکات سے لے کر اعلامیے تک عوامی نیشنل پارٹی انفرادی طور پر کوئی قدم نہیں اٹھائے گی کیونکہ اس کا مقصد صرف اے این پی نہیں بلکہ اس خطے میں بسنے والے ہر پشتون کو درپیش مسائل پر بات چیت، حل اور مشترکہ کوششوں کو یقینی بنانا ہے۔

محترم جمیل مرغز کی جانب سے پہلا اعتراض یہ اٹھایا گیا ہے کہ جب قومی وطن پارٹی کے چیئرمین آفتاب احمد خان شیرپائو کی جانب سے قومی جرگہ بلانے کا اعلان کیا تھا تو اس کے بعد عوامی نیشنل پارٹی نے بھی جرگہ بلانے کا فیصلہ کیا۔ اس اعتراض کا مختصر جواب یہ ہے کہ قومی وطن پارٹی کی جانب سے اعلان نہیں بلکہ تجویز دی گئی تھی جس کو عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر اسفندیار ولی خان نے نہ صرف قبول کیا تھا بلکہ مل کر چلنے کا عہد بھی کیا تھا۔ اس کے بعد اے این پی سربراہ کو ایک خط لکھا گیا جس کے جواب سے پہلے ہی صوبے کی چھوٹی سیاسی جماعتوں کو ملا کر ایک نئے اتحاد کا اعلان کیا گیا جس میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ صوبہ بھر کی قوم پرست جماعتیں قومی وطن پارٹی کے اتحاد میں شامل ہیں، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اس صوبے کے سٹیک ہولڈرز قوم پرست اور مذہبی سیاسی جماعتیں (اے این پی، جمعیت علمائے اسلام ف، جماعت اسلامی) اس اتحاد کا حصہ ہی نہیں۔

ہم اب بھی کہتے ہیں کہ آج اگر 10 مارچ کے بعد آفتاب احمد خان شیرپائو ایک قومی جرگے کا اعلان کرتے ہیں تو عوامی نیشنل پارٹی اسی طرح، اسی جذبے کے ساتھ اس جرگے کو کامیاب بنانے کے لئے مشترکہ جدوجہد کا حصہ ہوگی۔



دوسرا اعتراض یہ ہے کہ نشتر ہال میں منعقدہ جرگے میں اے این پی کو دعوت دی گئی لیکن انہوں نے شرکت نہیں کی۔ یہ بات بھی حقیقت کے بالکل برعکس ہے۔ یہ جرگہ یا کانفرنس پختونخوا جمہوری اتحاد کی جانب سے منعقد کیا گیا تھا جس میں عوامی نیشنل پارٹی کو دعوت ہی نہیں دی گئی تھی، لیکن ہم اب بھی کہتے ہیں کہ پشتون قوم کے مسائل پر بلایا گیا ہر جرگہ، ہر کانفرنس اور ہر بیٹھک ہماری ہے۔ اگر اس کانفرنس میں (اتحاد کا حصہ نہ ہونے کے باوجود) اے این پی کو دعوت دی گئی ہوتی تو ہم ضرور شرکت کرتے۔

تیسرا اعتراض جرگہ کی ساخت پر اٹھایا گیا ہے کہ عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر اسفندیار ولی خان اس جرگے کی صدارت کریں گے۔ بحیثیت پشتون دانشور ہمارے محترم جمیل مرغز کو معلوم ہونا چاہیے کہ جرگے میں صدارتی کرسی ہوتی ہی نہیں بلکہ ہر جرگے کا ایک میزبان ہوتا ہے، عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی سربراہ اسفندیار ولی خان 10 مارچ کو ہونے والے ’پختون قومی جرگہ‘ کی میزبانی کریں گے۔

چوتھا اعتراض یہ ہے کہ ایجنڈا پہلے ہی سے عوامی نیشنل پارٹی کا طے شدہ ہوگا، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اے این پی کی جانب سے دعوت نامے کے ساتھ (اے این پی کے) نکات پر مشتمل ایک خط بھی دیا گیا ہے جس کے آخر میں یہ وضاحت کی گئی ہے کہ یہ ہمارے نکات ہیں، اگر کوئی بھی سیاسی جماعت، تحریک، یہاں تک کہ ایک انفرادی پختون بھی کوئی نکتہ یا تجویز حتمی اعلامیے کا حصہ بنانا چاہے تو وہ تحریری طور پر 10 مارچ سے پہلے باچا خان مرکز پشاور میں جمع کروا دے تاکہ اسے بھی جرگے کے نکات کا حصہ بنایا جا سکے۔

موصوف نے اپنے کالم میں آخری نکتہ یہ اٹھایا ہے کہ اس جرگے سے پشتون مزید تقسیم کا شکار ہوں گے اور اے این پی کو یہ غلط فہمی ہے کہ وہ پختونوں کی واحد ہمدرد جماعت ہے۔ موصوف کو یاد ہونا چاہیے کہ 1910 میں باچا خان نے جس جدوجہد کا آغاز کیا تھا اس کا بنیادی مقصد ہی پختونوں کو متحد رکھنا اور سیاسی شعور دینا تھا۔ میں موصوف کی پارٹی یا اکابرین کے حوالے سے قطعاً ایسے الفاظ استعمال نہیں کروں گا جس سے پختونوں کے اتحاد و اتفاق کو نقصان پہنچے، بلکہ اے این پی قومی وطن پارٹی کی تہ دل سے مشکور ہے کہ انہوں نے اے این پی کی جانب سے 18 فروری کو باچا خان مرکز پشاور میں منعقدہ ’ضم اضلاع کانفرنس‘ میں نہ صرف شرکت کی بلکہ اپنی انتہائی مفید تجاویز کو بھی مشترکہ اعلامیے کا حصہ بنایا۔



میں صرف موصوف کے کردار کو اس حد تک سمجھتا ہوں کہ یہ قومی وطن پارٹی کا بیانیہ نہیں ہو سکتا بلکہ یہ موصوف کا ذاتی ایجنڈا ہو سکتا ہے کہ پختون اس مشکل وقت میں بھی ایک نہ ہو اور اسی طرح تقسیم در تقسیم سازش کا شکار ہو۔ اے این پی پختونوں کے اتحاد و اتفاق کے لئے ہر مشکل وقت میں اپنا بھرپور کردار ادا کرتی رہی ہے اور یہ کردار کبھی نہیں رکے گا۔ چاہے کوئی خوش ہو یا پریشان۔ ہاں، ہم ہر کسی کی مثبت تنقید کو خوش آمدید کہتے ہیں اور امید ظاہر کرتے ہیں کہ ہمارے اٹھائے گئے ہر اقدام کی مزید بہتری کے لئے ہمیں ایک مناسب فورم پر تجاویز، آرا و مشورے دیے جا سکیں۔

آخر میں اخباری ادارے کے نوٹس میں لانا چاہتا ہوں کہ کالم کا لکھاری کوئی بھی ہو، اخلاقی اور اصولی طور پر ضروری ہے کہ وہ قارئین کو بتائے کہ اس کا تعلق کس جماعت، صحافتی ادارے، کسی بھی سرکاری یا غیر سرکاری ادارے سے ہے تاکہ ایک سیاسی کارکن کالم نگار کے روپ میں سیاسی مخالفین پر بغیر کسی ثبوت یا دلیل کے بلاجواز تنقید نہ کر سکے اور صحافتی اصول بھی پامال نہ ہو۔

اے این پی کی اپنی ایک تاریخ ہے اور اس تاریخی جدوجہد کے ساتھ ہر وقت میں مخصوص ذہنیت کے لوگوں نے کوشش کی ہے کہ پختونوں کی بقا اور حقوق کے لئے ہر فورم پر لڑنے والی اے این پی کو کمزور کیا جائے۔ ہمیں سب کا احترام ہے لیکن اپنی شناخت چھپانا چہ معنی دارد۔
مزیدخبریں