سماعت کے دوران پیپلزپارٹی کے وکیل رضا ربانی نے کہا کہ جمعہ کو میں نے اپنے دلائل میں سینیٹ کی تشکیل پر دلائل دیے تھے، میں آج آرٹیکل 226 پر دلائل دوں گا۔
انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 226 پر دوبارہ اسمبلی کے ایجنڈے پر آچکا ہے، ایوان میں آرٹیکل 226 میں ترمیم کا بل زیر التوا ہے جبکہ آرٹیکل 226 کے سینیٹ پر اطلاق نہ ہونے کا آرڈینس بھی آچکا ہے.
انہوں نے کہا کہ پاکستانی سپریم کورٹ میں بھارتی قوانین نظیریں دی گئیں، بھارت کے آئین و قانون پاکستانی آئین کے آرٹیکل 226 کی حدود کا تعین نہیں کرسکتے۔
پیپلزپارٹی کے رہنما کا کہنا تھا کہ وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ کا دفتر لیڈر آف دی ہاؤس (قائد ایوان) سمجھا جاتا ہے۔
دوران سماعت رضا ربانی کا کہنا تھا کہ خفیہ انتخابات کی کہاں شرط ہے، خفیہ انتخابات ایک مختلف معاملہ ہے، انتخابات کے مختلف سیٹ ہوتے ہیں، ایک سیٹ وزیراعظم و وزرائے اعلیٰ کا انتخاب ہے، ایک سیٹ چیئرمین سینٹ و اسپیکرز کے انتخابات سے متعلق ہے، ان انتخابات کے لیے خفیہ کا طریقہ کار موجود ہے۔
رضا ربانی کا کہنا تھا کہ سینیٹ انتخابات میں پارٹی پالیسی سے بالاتر بھی ووٹ ڈالا جاتا ہے، اس لیے آئین نے آرٹیکل 226 کے تحت تحفظ دیا ہے، چونکہ سینیٹ وفاق کا ہاؤس ہے، یہ وفاقی یونٹس کا تحفظ کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سینیٹ سیاسی جماعتوں کی نہیں بلکہ وفاق کی نمائندگی کرتا ہے، سیاسی جماعتوں کے فورم محتلف ہیں، قومی اسمبلی و صوبائی اسمبلیاں براہ راست سیاسی جماعتوں کے فورم ہیں، سینیٹ کا تصور یکسر مختلف ہے۔
عدالت میں اپنے دلائل دیتے ہوئے رضا ربانی نے کہا کہ قومی اسمبلی آبادی کی اکثریت کی نمائندہ ہوتی ہے، سینیٹ میں وفاقی یونٹس کی متناسب نمائندگی ہوتی ہے، سینیٹ وفاقی یونٹس کے حقوق کا محافظ ہے۔
رضا ربانی نے کہا کہ سینیٹ انتخابات میں رکن اسمبلی کی نااہلی سے متعلق 63 (اے) کی کوئی بار نہیں، سینیٹ سے متعلق حفیظ پیرزادہ کی متناسب نمائندگی سے متعلق تقریر قومی اسمبلی سے متعلق ہے، سینیٹ سے متعلق متناسب نمائندگی کی نہیں بلکہ قومی اسمبلی میں سیاسی جماعتوں کی نمایندگی کی بات کی۔
ان کی بات پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کی دلیل یہ ہے کہ متناسب نمائندگی صرف ووٹ گننے سے متعلق ہے، اگر سیاسی پارٹیاں تقسیم ہیں تو صوبائی اسمبلی کی سیٹوں کی سینیٹ میں کیسے نمائندگی ہوگی، اس پر رضا ربانی نے کہا کہ ہوسکتا ہے کہ کسی پارٹی کی آپ کو صحیح متناسب نمائندگی نظر آئے۔
رضا ربانی نے کہا کہ صوبہ پنجاب میں پی ٹی آئی بڑی سیاسی جماعت ہے، مجھے صحیح تعداد کا اندازہ نہیں لیکن شاید 5 یا 6 نشتیں زیادہ ہوں، اس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ پی ٹی آئی نے پنجاب میں اتحاد بھی کیا ہے۔
اسی دوران رضا ربانی نے کہا کہ اسپیکر اور چیئرمین سینٹ کے الیکشن خفیہ ووٹنگ سے ہوتے ہیں، اسپیکر اور چیرمین سینٹ کے عہدے سیاسی وابستگی سے بالاتر ہوتے ہیں، سیاسی وابستگی سے بالاتر عہدے کے لیے ووٹنگ کا عمل خفیہ رکھا گیا، جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ سیاسی اتحاد خفیہ نہیں ہوتے، جہاں کسی انفردای شخص سے اتحاد ہو وہاں خفیہ رکھا جاتا ہے، ساتھ ہی جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ پارٹی اے کی 6 نشستیں بنتی ہیں اور اسے 2 ملتی ہیں تو تب قانون کا اطلاق کہاں ہوتا ہے۔پھر متناسب نمائندگی کہاں گئی۔ انہوں نے کہا کہ آئین بنانے والوں کی متناسب نمائندگی سے متعلق دانشمندی کہاں گئی۔
عدالتی ریمارکس پر رضا ربانی نے کہا کہ یہ ریاضی کا سوال نہیں اور نہ یہ اے، بی یا پھر سی کی بات ہے، یہ سینیٹ ہے، یہ وفاق کا معاملہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بعض اوقات سیاسی اتحاد خفیہ بھی ہوتے ہیں، میڈیا رپورٹس کے مطابق ایم کیوایم اور پی ٹی آئی کے درمیان معاہدہ ہوا ہے، پی ٹی آئی کراچی میں جلد مردم شماری کے لیے فنڈز دے گی، بدلے میں ایم کیو ایم سینیٹ کے لیے پی ٹی آئی کو ووٹ دے گی، کیا عدالت اس عمل کو کرپشن قرار دے گی، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دییے کہ تمام حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے جائزہ لیں گیے، سیاسی اتحاد خفیہ نہیں رکھے جائیں۔
رضا ربانی نے کہا کہ ہم جاگیردارانہ اور بدصورت سرمایہ دارانہ معاشرے میں رہ رہے ہیں، کسی بھی بات کو سیاق وسباق سے ہٹ کر نہیں دیکھا جاسکتا۔
رضا ربانی کا کہنا تھا کہ ریاست تو اپنے 20 ریٹرننگ افسران کو تحفظ تک نہیں دے سکی، اس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ دنیا کی تاریخ اختلاف رائے کرنے والوں سے بھری پڑی ہے، اختلاف رائے کرنے والے نتائج کی پرواہ نہیں کرتے، ڈکٹیٹر کے خلاف بھی لوگوں نے کھل کر اختلاف رائے کیا، آئین میں اختلاف رائے پر کوئی نااہلی نہیں ہوتی۔
ان کی بات پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ایسا کوئی معاملہ عدالت کے سامنے نہیں ہے، بیلٹ پیپر پولنگ اسٹیشن پر ہی سیل کیے جاتے ہیں، جس پر رضا ربانی نے کہا کہ سیل کیے جانے کے باوجود ڈیپ اسٹیٹ کی ان تک رسائی ہوتی ہے یہ آپ مجھ سے زیادہ جانتے ہیں، اس بنا پر بھی ووٹ قابلِ شناخت نہیں ہونا چاہیے۔
اس پر رضا ربانی نے کہا کہ آئین میں تو آرٹیکل 10 اے بھی ہے، شفاف ٹرائل ہوتا تو لاپتا افراد کا مسئلہ نہ ہوتا، عدالتوں کی کوشش کے باوجود لاپتا افراد کا مسئلہ جوں کا توں ہے، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کہنا چاہتے ہیں کہ آئین پرعمل نہیں ہوتا۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا یہ آئین شکنی 1973 میں ہی شروع نہیں ہو گئی تھی؟ جس پر رضا ربانی نے کہا کہ کسی مخصوص دور کی بات نہیں کرنا چاہتا۔
انہوں نے کہا کہ کسی کو 10 نشتیں ملنا تھی تو نہ ملی تو ہارس ٹریڈنگ نہیں ہوگی، جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کم از کم تحقیقات تو ہونی چاہیے کہ ہارس ٹریڈنگ ہوئی یا نہیں ہوئی، آج تک ہارس ٹریڈنگ پر کوئی سزا ملی، نہ نااہلی ہوئی، بادی النظر میں ہارس ٹریڈنگ کے شواہد پر ووٹ دیکھا جانا چاہیے۔