ہیومن رائٹس آبزرو کی رپورٹ میں مذہبی اقلیتوں پر اثر انداز ہونے والے کلیدی مسائل، توہین مذہب کے قوانین کا غلط استعمال، جبری تبدیلی مذہب، مردم شماری میں نمائندگی اور متعصب تعلیمی نظام کا احاطہ اور اس حوالے سے اعدادوشمار پیش کئے گئے ہیں۔
سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے نصاب اور نصابی کتابوں میں متعارف کرائے گئے مذہبی مواد کے پیمانے، توہین رسالت کے قانون کے غلط استعمال، جبری تبدیلی مذہب اور پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کی گھٹتی ہوئی آبادی پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔
مقررین نے کہا کہ ایسے اقدامات اور واقعات کے نتیجے میں اقلیتوں کے حوصلے پست ہو رہے ہیں اور مذہبی تقسیم گہری ہو رہی ہے۔
ادارہ برائے سماجی انصاف کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر پیٹر جیکب نے کہا کہ اقلیتوں سے متعلقہ کئی اور مسائل بھی ہیں جو کہ باعث تشویش ہیں، جیسے کہ مذہبی اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے (جسٹس جیلانی فیصلہ 2014ء) پر عملدرآمد میں مایوس کن پیشرفت، جو کہ وفاق کی طرف سے کی گئی تشخیص (جسٹس ایٹ افار) میں درج ہے۔ ملازمت کے کوٹہ اور تعلیمی کوٹہ کا نفاذ اور اقلیتوں کے لئے ایک غیر موثر قومی کمیشن کا قیام شامل ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ مگر ادارہ برائے سماجی انصاف نے بالخصوص دو اہم مسائل پر گذشتہ سال پرائمری اور سیکنڈری ڈیٹا کو جمع کرکے مذکورہ حقائق نامہ ترتیب دیا ہے اور وہ دو مسائل، توہینِ مذہب کے قوانین کے غلط استعمال اور جبری تبدیلی مذہب کے حوالے سے ہیں۔
دونوں اہم ایشوز پر اعدادوشمار پیش کرتے ہوئے پیٹر جیکب نے بتایا کہ سال 2021ء کے دوران توہین مذہب کے قوانین کے تحت کم از کم 84 افراد پر الزام لگایا گیا جبکہ سیالکوٹ میں سری لنکن شہری پریانکا کمارا کے ہجوم کے ہاتھوں قتل سمیت تین افراد کو ماورائے عدالت قتل کیا گیا۔
انہوں نے بتایا کہ 2020ء میں، صوبہ پنجاب کے اضلاع چکوال اور چنیوٹ میں میں شعیہ مسلمانوں کیخلاف سب سے زیادہ واقعات رپورٹ ہوئے۔ یہ دونوں اضلاع فرقہ وارانہ تنظیموں کے گڑھ ہیں، جبکہ 2021ء میں شیخوپورہ میں 13، لاہور میں 11 اور قصور میں 10 واقعات سامنے آئے۔ سال 2021ء کے دوران 80 فیصد سے زیادہ واقعات صوبہ پنجاب میں سامنے آئے۔
سال 2021ء کے دوران، متاثرین کی سب سے زیادہ تعداد 45 کا تعلق مسلم عقیدے کی شناخت سے تھا۔ اس کے بعد احمدیوں 25 جبکہ 7 ہندو اور مسیحی برادریوں سے تھے۔ تاہم اقلیتیں ان واقعات سے سب سے متاثر ہوئیں جبکہ وہ ملکی آبادی کا صرف 3.5 فیصد ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ مزید برآں اگر ان اعدادوشمار کو معیار کے اعتبار سے دیکھا جائے تو پوری پوری اقلیتی بستیوں کو ہراساں کرنے کے واقعات سامنے آئے۔ مثال کے طور پر اگست 2021 میں پنجاب کے شہر بھونگ میں ایک ہندو مندر پر ناصرف ہجوم نے حملہ کیا بلکہ پوری بستی کو ہراساں اور خوفزدہ کیا گیا۔ ایسے واقعات خاص طور پر اقلیتی آبادی کے خلاف الزامات کے شدید اثرات کو ظاہر کرتے ہیں۔
جبری تبدیلی مذہب کی اعدادوشمار پیش کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سال 2021ء میں ایک بار پھر واقعات کی تعداد بڑھ گئی اور کم از کم 78 کیس رپورٹ ہوئے۔ جن کو سی ایس جے کی طرف سے اپنائی گئی تشریح کے مطابق جبری یا قابل اعتراض مذہب تبدیلیوں کے طور پر سمجھا جانا چاہیے۔ لہذا زیرِ جائزہ سال میں 2020 کے مقابلے میں 80 فیصد اور 2019 کے مقابلے میں 50 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔ رہورٹ ہوئے 78 کیسز میں 39 ہندو، 38 مسیحی، اور ایک سکھ لڑکیاں اور خواتین شامل ہیں جو جبری تبدیلی مذہب کا شکار ہوئیں۔
انہوں نے بتایا کہ ان متاثرین لڑکیوں میں سے 76 فیصد نابالغ تھیں مزید یہ کہ 18 فیصد کی عمر کا ذکر نہیں کیا گیا۔ اس لئے یہ شک کرنے کی وجہ ہے کہ یہ بھی نابالغ ہو سکتی ہیں۔ خاص طور پر، 33 فیصد متاثرہ بچیوں کی عمریں 14 سال یا اس سے کم تھیں۔ اس لئے صرف 6 فیصد کی تصدیق کی گئی کہ جو بالغ یا 18 سال سے زیادہ عمر کی حد میں تھیں۔ اسی طرح صوبائی لحاظ سے، سندھ میں 40، پنجاب میں 36 اور بلوچستان اور خیبر پختونوا میں ایک، ایک کیس رپورٹ ہوا۔
سیمنار سے خطاب کرتے ہوئے معروف صحافی امبر رحیم شمسی نے کہا کہ "فیکٹ شیٹ مسائل کو حقیقی معنوں میں اجاگر کرتی ہے کہ جو اقلیتوں کے اپنے مذہب پر آزادی سے عمل کرنے اور خوف اور امتیاز سے پاک زندگی گزارنے کے حق پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اگر حکومت اقلیتوں کے تحفظ اور انہیں پاکستان کے شہریوں کے مساوی درجہ دینے میں سنجیدہ ہے تو اسے رپورٹ میں دی گئی سفارشات پر فوری عمل کرنا چاہیے۔
معروف قانون دان اسلم خاکی نے سول سوسائٹی، سیاسی، مذہبی اور انسانی حقوق کے علمبرداروں پر زور دیا کہ مذہبی اقلیتوں کے حقوق کی پامالی کے حوالے سے صرف رسمی مذمت سے آگے بڑھا جائے اور نفرت انگیز جرائم میں ملوث لوگوں کو اکسانے والے عناصر کے خلاف کارروائی کرنے کے حوالے ایک موثر آواز بلند کی جائے۔