دستورہ سے خطاب کرتے ہوئے پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات طالعمند خان نے کہا کہ زبان اظہار کا ذریعہ ہے۔ ہر زبان بذات خود علم کے حصول، اس کی ترقی اور انسانی تہذیب میں اپنا حصہ ڈالنے کی صلاحیت رکھتی ہے بشرطیکہ اس کو آزاد سیاسی ماحول اور سرپرستی حاصل ہو۔ انہوں نے کہا کہ سوئٹزرلینڈ کا ملک ایک زندہ مثال ہے جس نے لسانی اور نسلی تنوع کے ساتھ متحد رہنے اور ترقی کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ سوئٹزرلینڈ میں چار قومی زبانیں ہیں جن میں سے ایک زبان رومنش کے بولنے والوں کی تعداد صرف صفر اعشاریہ پانچ فیصد ہے لیکن پھر بھی اس کو قومی اور سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے۔
طالعمند خان نے مزید کہا کہ اس کے برعکس پاکستان میں نوآبادیاتی زبان انگریزی کو سرکاری زبان کی حیثیت حاصل ہے جبکہ اردو کو پاکستان کی قومی زبان قرار دے دیا گیا تھا جسے بولنے والوں کی تعداد محض 7 ہی فیصد تھی جو نہ ترقی کی سبب بن سکی اور نہ قومی یکجہتی کو یقینی بنا سکی۔ پاکستان میں بولی جانے والی ہر زبان میں علم اور ترقی کی صلاحیت ہے لیکن کسی اور زبان کو جگہ نہیں دی جاتی اور یہ مسئلہ سیاسی نوعیت کا ہے نہ کہ ادبی اور تکنیکی۔
دستورہ میں دیگر سیاسی جماعتوں کے نمائندوں، ادبی شخصیات اور صحافتی اداروں کے نمائندوں نے بھی خطاب کیا۔ پیپلز پارٹی سے اقبال حسین، جمعیت علمائے اسلام سے مفتی عارف اللہ، مسلم لیگ ن سے سید افضل شاہ اور اے این پی سے عبدالعلی آشنا پروگرام میں شریک ہوئے۔ ان کے علاوہ سوات پریس کلب کے چیئرمین شیرین زادہ ، تواروالی زبان کے نمائندے نور خان کوہستانی، شوکت شرار، ہوٹل ایسوسی ایشن کے وکیل خان اور فضل محمود روخان نے بھی تقریب سے خطاب کیا۔
تمام مقررین نے اتفاق کیا کہ علم، ترقی اور انسانی تہذیب میں کردار ادا کرنے کے لیے مادری زبان کے اہمیت مسلمہ ہے۔ مادری زبانوں کو سیاست اور اقتدار کے کھیل کا ہتھیار نہیں بنانا چاہئیے اور ہر زبان کو اس کی جائز حیثیت ملنی چاہئیے۔ مقررین نے تمام پرائیویٹ سکولوں سے پرزور مطالبہ کیا کہ فوری طور پر اپنے سکولوں میں پختون اور دیگر علاقوں میں بولی جانے والی مقامی اور علاقائی زبانوں کی تعلیم کو بطور مضمون تدریسی عمل کا حصہ بنایا جائے۔