خود آپ کے درمیان آ کر علم کے چراغ روشن کرے تو وہ لمحے کتابوں سے بھی زیادہ قیمتی بن جاتے ہیں۔ کچھ ایسا ہی لمحہ ہمارےسٹڈی سرکل میں اس وقت پیش آیا جب کہنہ مشق کالم نگار اور بیوروکریٹ یاسر پیرزادہ صاحب نے ہماری دعوت قبول کی۔ وہ شخص جو اپنے لفظوں سے معاشرتی پیچیدگیوں کو سادہ بنا دیتا ہے، جب ہمارے درمیان آیا تو پارک کے مناظر بھی جیسے خاموش ہو کر ان کی گفتگو سننے لگے۔
ہماری روایت رہی ہے کہ ہم پارک میں جمع ہوتے ہیں، یہ کوئی شاندار ہال یا بڑی لائبریری نہیں بلکہ کھلا آسمان ہے جہاں ہوا کی سرسراہٹ اور بچوں کی قلقاریاں ہماری گفتگو کا حصہ بن جاتی ہیں۔ انہی عام سے مناظر میں ہم غیر معمولی خیالات کے مسافر بن جاتے ہیں۔ کبھی کسی پتنگ کی ڈور فضاؤں میں تیرتی ہے تو کبھی چائے کے کھوکھے سے اٹھتی خوشبو ہمیں اپنی جانب متوجہ کر لیتی ہے، مگر ان سب کے باوجود ہم اپنے علمی سفر سے غافل نہیں ہوتے۔
یاسر پیرزادہ صاحب نے جب لب کشائی کی تو ان کی گفتگو کا جادو ہر طرف پھیل گیا۔ وہ ان نوجوانوں کی بات کر رہے تھے جو بڑے خواب دیکھنے کا حوصلہ رکھتے ہیں مگر معاشرتی ناہمواریوں کے باعث اپنی صلاحیتوں کو اُجاگر نہیں کر پاتے۔ انہوں نے نہایت درد مندی سے کہا کہ بے روزگاری ہمارے ملک کا ایک گہرا زخم ہے، جس نے لاکھوں خوابوں کو چکنا چور کر دیا ہے۔ ان کے لہجے میں ایک ایسی گونج تھی جو ہمارے دلوں تک اتر رہی تھی۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے معاشرے میں میرٹ کا تصور محض ایک خوشنما خیال بن کر رہ گیا ہے۔ سفارش اور اقربا پروری کے اندھیروں نے صلاحیتوں کے اجالے کو دھندلا دیا ہے۔ جب انہوں نے ان نوجوانوں کا ذکر کیا جو اپنی قابلیت کے باوجود مواقع کے دروازے بند پاتے ہیں تو ان کی آواز میں چھپا کرب نمایاں تھا۔
بیوروکریسی کے پیچیدہ نظام پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ ایک ایسی بند گلی ہے جہاں داخل ہونا مشکل اور دیانت داری کے ساتھ رہنا اس سے بھی دشوار تر ہے۔ اپنی ذاتی زندگی کے تجربات بیان کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ حق اور اصولوں پر ڈٹے رہنے کا سفر کتنا کٹھن ہوتا ہے۔ ان کی کہانیوں میں سچائی کا ایسا رنگ تھا جس نے ہمیں اپنے مستقبل کے فیصلوں پر نظرثانی پر مجبور کر دیا۔
تعلیمی نظام پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہماری یونیورسٹیاں علم کے مراکز کے بجائے ڈگریاں بانٹنے کی فیکٹریاں بن چکی ہیں۔ تحقیق کا فقدان ہے اور طلبہ کو عملی زندگی کے چیلنجز کے لیے تیار کرنے کا جذبہ کہیں کھو گیا ہے۔ ان کے مطابق تعلیم کا مقصد صرف نوکری کا حصول نہیں بلکہ شخصیت کی تعمیر اور معاشرتی شعور کو بیدار کرنا ہونا چاہیے۔
انہوں نے ہمیں نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ "کہیں نہ کہیں آپ کو موقع ضرور ملے گا، بس حوصلہ نہ ہاریں۔" یہ جملہ صرف ایک نصیحت نہیں بلکہ ان کی زندگی کا نچوڑ تھا۔ ان کی باتوں نے ہمیں یہ احساس دلایا کہ زندگی میں اصل کامیابی اُنہیں حاصل ہوتی ہے جو مشکلات کے باوجود اپنے خوابوں کا تعاقب جاری رکھتے ہیں۔
یاسر پیرزادہ صاحب نے ہمارے اسٹڈی سرکل کے جذبے کو سراہتے ہوئے کہا کہ ایسے علمی حلقے معاشرتی شعور کو فروغ دینے میں سنگِ میل ثابت ہوتے ہیں۔ انہوں نے اس بات پر حیرت کا اظہار کیا کہ شور و غل کے اس ماحول میں بھی ہم کتابوں کے ساتھ اپنی وابستگی کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ ان کے الفاظ نے ہمیں یقین دلایا کہ ہمارے چھوٹے سے سرکل کا وجود نہ صرف اہم ہے بلکہ امید کی ایک کرن ہے۔
یہ آسان نہیں ہوتا کہ ایک ہنگامہ خیز پارک میں بیٹھ کر علمی گفتگو کی جائے۔ کبھی ہوا کے جھونکے کتابوں کے صفحات پلٹ دیتے ہیں تو کبھی بچوں کی معصوم مسکراہٹیں ہماری توجہ کو بھٹکانے کی کوشش کرتی ہیں۔ مگر ہم نے یہ عہد کیا ہے کہ ان تمام خللوں کے باوجود علم کی پیاس بجھانے کا سفر جاری رکھیں گے۔
یاسر پیرزادہ صاحب کی موجودگی نے ہمارے عزائم کو تقویت دی۔ ان کی گفتگو میں پوشیدہ حکمت نے ہمیں یہ سکھایا کہ مشکلات چاہے جتنی بھی ہوں، اگر آپ میں لگن ہے تو کوئی بھی رکاوٹ آپ کا راستہ نہیں روک سکتی۔
جب وہ رخصت ہو رہے تھے تو ہمارے دلوں میں ان کے لیے بے پناہ احترام تھا۔ ان کی باتیں دیر تک ہمارے ذہنوں میں گونجتی رہیں۔ یہ ملاقات صرف ایک علمی نشست نہیں تھی بلکہ یہ ایک تحریک تھی جس نے ہمارے دلوں میں علم کی روشنی کو مزید اجاگر کر دیا۔
بیس سال کی عمر زندگی کا وہ نایاب لمحہ ہے جب انسان بڑے سے بڑا خطرہ مول لے سکتا ہے۔ یہ بے فکری کی عمر ہوتی ہے جہاں کھونے کو کچھ نہیں اور پانے کے امکانات بے شمار ہوتے ہیں۔ اگر اس عمر میں آپ کسی کام میں ناکام بھی ہو جائیں تو بھی یہ ناکامی آپ کے تجربے میں اضافے کا باعث بنتی ہے۔
اس عمر میں انسان کو ہر طرح کا تجربہ کرنے کا موقع ملتا ہے۔ کسی چھوٹے موٹے کاروبار کا آغاز کریں، کسی نئی مہارت کو سیکھیں، حتیٰ کہ کوئی عام سی ملازمت کریں تاکہ آپ کو معلوم ہو کہ دنیا کس طرح کام کرتی ہے۔ ان تجربات سے نہ صرف آپ کا حوصلہ بلند ہوگا بلکہ آپ کو زندگی کے حقیقی مسائل کا سامنا کرنے کا فن بھی آئے گا۔
یاسر پیرزادہ صاحب نے ہمیں مشورہ دیا کہ "اپنی کمائی کا ایک حصہ ضرور پس انداز کریں، کوئی چھوٹی سی سرمایہ کاری کریں۔" ان کے مطابق اگر آپ اپنی آمدنی کے ایک سے زیادہ ذرائع پیدا کریں تو زندگی کے چیلنجز کا سامنا کرنا آسان ہو جائے گا۔
انہوں نے ہمیں نصیحت کی کہ ایسے لوگوں کے ساتھ وقت گزاریں جو آپ کو مثبت سوچ اور بلند حوصلے کی ترغیب دیں۔ ایسے افراد کی صحبت اختیار کریں جن سے آپ کچھ سیکھ سکیں۔ اگر آپ کو کوئی شخص متاثر کرتا ہے تو اس سے ملاقات کے لیے جدوجہد کریں، چاہے وہ کتنا ہی مصروف کیوں نہ ہو۔
آخر میں، انہوں نے کہا کہ محبت ضرور کریں، خواب ضرور دیکھیں مگر اپنی عملی زندگی کو نظرانداز نہ کریں۔ اگر آپ اس عمر میں خود کو معاشی طور پر مضبوط کر لیتے ہیں تو زندگی بھر آپ کو کسی پر انحصار نہیں کرنا پڑے گا۔ سچا عاشق وہی ہے جو نہ صرف محبت کرے بلکہ اپنے محبوب کو ایک خوشحال زندگی کا خواب بھی دے سکے۔
ہم نے اس دن سیکھا کہ اگر آپ کے اندر ہمت ہے تو دنیا کی کوئی طاقت آپ کو کامیاب ہونے سے نہیں روک سکتی۔ یہ اسٹڈی سرکل ہمارے لیے محض کتابوں تک محدود نہیں بلکہ یہ شعور کی روشنی پھیلانے کی ایک تحریک ہے جو ہمیں ہر قدم پر آگے بڑھنے کا حوصلہ دیتی ہے۔