ایسے سانحات کی آڑ میں کچھ صحافی بہت ہی زیادہ جذباتی ہو جاتے ہیں۔ میری نظر میں جو صحافی جذباتی ہو جائے اسے صحافت چھوڑ کر اداکاری کرنی چاہیے۔ ایسی ایسی بے تکی تنقید کی جاتی ہے کہ الله کی پناہ۔ وزیراعلیٰ نے چار گھنٹے بعد کیوں ایکشن لیا؟ تحقیقات اور جے آٸی ٹی کیوں بناٸی؟ ڈاٸیریکٹ پھانسی کی سزا کیوں نہیں سناٸی؟ واقعے کی حقیقت جانتے ہوئے بھی آسان ہدف وزیراعلیٰ کو گالیاں نکالی گٸیں۔ وزیراعلیٰ شہبازشریف ہوں یا عثمان بزدار، پاکستان کی سیاسی تاریخ اور معروضی حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ ایک اصولی بات ہے۔ اس طرح اگر استعفے آنے لگ گئے تو پھر ایک سال بھی کوٸی حکومت چل نہیں سکے گی۔
میں یہ کہتا ہوں کے ایسے لوگ صرف اپنی عزت بنانے کی خاطر اس طرح کی اداکاری کرتے ہیں کہ جیسے سب سے زیادہ دکھی یہی لوگ ہیں، باقی ہم سب بے حس ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ اگر انسان میں سچ بولنے کی ہمت نہ ہو تو خاموش رہے۔ اگر جذبات پر قابو نہیں رکھ سکتا تو صحافت چھوڑ دے۔
ذرا پیچھے پلٹ کر دیکھیں۔ کیا قاٸداعظم کی وفات سے لے کر ساہیوال کے اس اندوہناک واقعے تک کسی ایک واقعے کی بھی حقیقت قوم کے سامنے آ سکی؟ میں ایک ایک کر کے ان سانحات کا نام لینے کی شدید خواہش کے باوجود نام نہیں لے رہا کیونک مجھ میں سچ بولنے کی ہمت نہیں، لیکن سوچیے تو سہی۔ استعفے آتے رہے، حکومتیں بدلتی رہیں۔ کسی ایک بھی واقعے کی تحقیقات معیار کے مطابق نہیں ہوٸی۔ اگر کچھ کی ہوٸی تو وہ کبھی بھی منظر عام پر نہیں آٸی۔ اگر ہر سانحے کی ذمہ دار حکومت ہوتی ہے تو حکومت بدلنے کے بعد بھی حقیقت کیوں منظر عام پر نہیں آتی؟
آخر ہم کچھ تو غلط کر رہے ہیں۔ آخر نظام کی ایسی کون سی خرابی ہے جس پر ہم توجہ دینے کے بجائے آسان ہدف پر تنقید کر کے بری الزمہ ہو جاتے ہیں، حالانکہ بعض اوقات سازشی عناصر کا مقصد ہی وہ تنقید کروانا ہوتا ہے جو ہم آسان ہدف پر کر رہے ہوتے ہیں۔ دراصل ہم خود ان کا مقصد پورا کر رہے ہوتے ہیں۔ لیکن ہمیں بالکل بھی احساس نہیں ہوتا۔
جب اتنے بڑے بڑے سانحات اس ملک میں ہو گئے اور ہم رات بھر سکون کی نیند سو گئے تو اب کون سی قیامت آگٸی؟ بس کیڑے مکوڑے ہی تو تھے۔ آ گئے کسی ہاتھی کے پیر کے نیچے۔