ڈان اخبار کے مطابق قومی اسمبلی کا اجلاس 10 ہفتوں کے وقفے کے بعد ہو گا کیونکہ اس کا سابقہ اجلاس گزشتہ سال 29 اکتوبر کو ہوا تھا جبکہ سینٹ نے اپنا آخری اجلاس 18 جنوری کو اختتام پذیر کیا تھا جس میں قومی احتساب بیورو ( نیب) کے حزب اختلاف کے اراکین کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور میڈیا ٹرائل کے الزامات کی روشنی میں اپوزیشن جماعتوں نے اس کے کردار اور کارکردگی پر دوبارہ سوالات اٹھائے تھے۔
اجلاس طلب کرنے کا اقدام پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے ڈپٹی سینیٹ چیئرمین سلیم مانڈوی والا نے شروع کیا ہے جنہوں نے نیوز کانفرنسوں کے ذریعے نیب پر حملہ کیا تھا اور بیورو کے ذریعے انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کا معاملہ یورپی یونین اور اقوام متحدہ سمیت بین الاقوامی فورمز پر اٹھانے کی دھمکی دی تھی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ سینیٹ اجلاس کے اختتام پر اعلیٰ پارلیمانی دفتر کے حامل ایک حکومتی رکن نے مسٹر مانڈوی والا سے رجوع کیا تھا اور انہیں آگاہ کیا تھا کہ حکمران جماعت تحریک انصاف احتساب کے ادارے کے کچھ اختیارات کو کم کرنے کے لیے نیب قوانین میں مجوزہ تبدیلیوں پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے راضی ہے خصوصاً ان لوگوں کے لیے جو کاروباری برادری اور عام لوگوں سے وابستہ ہیں۔
جب سلیم مانڈوی والا سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے تصدیق کی کہ ان سے اس معاملے پر حکومت کی طرف سے رابطہ کیا گیا ہے اور کہا تھا کہ ( حکومت کی طرف سے) ایک پیش کش آئی ہے جس پر ہم عمل کرنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ 'حتمی حل' ہے اور اس میں کوئی شک نہیں ہے، انہوں نے کہا کہ وہ سیاستدانوں، بیوروکریٹس یا سرکاری عہدہ داروں کے لیے نہیں بلکہ ایک عام آدمی کے لئے لڑ رہے ہیں۔
سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ حکومت پر دباؤ ہے کیونکہ ملک بھر سے تاجر اور کاروباری برادری نیب کی زیادتیوں پر رو رہی ہے، انہوں نے کہا کہ نہ تو حکومت مناسب طریقے سے کام کر رہی ہے اور نہ ہی نجی شعبہ نیب کے اقدامات کی وجہ سے کارکردگی دکھانے کے قابل ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت نیب قوانین میں بھی تبدیلی لانے پر راضی ہے کیونکہ اس نے گزشتہ سال نیب ترمیمی آرڈیننس پیش کیا تھا جو بعد میں ختم ہو گیا۔
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات شبلی فراز اور پارلیمانی امور سے متعلق وزیر اعظم کے مشیر بابر اعوان سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے سے انکار کردیا کہ حکومت نے اس معاملے پر حزب اختلاف سے کوئی باضابطہ رابطہ کیا ہے.