جیو نیوز کے پروگرام ''نیا پاکستان'' میں گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم عمران خان کے زیر صدارت جس اجلاس میں نواز شریف کو باہر بھیجنے کا فیصلہ ہوا، میرے سمیت پارٹی کی دیگر لیڈرشپ بھی اس میں شریک تھی۔
اسد عمر نے بتایا کہ جس وقت سابق وزیراعظم نواز شریف کو بارے بھیجنے کے بارے میں میٹنگ ہو رہی تھی، اس میں تقریباً 8 لوگ بیٹھے تک میں بھی اس میں موجود تھا۔ میٹنگ میں شریک لوگوں کی مختلف آرا تھیں، بعض اس فیصلے کے حق میں نہیں تھے۔ انھیں بیرون ملک بھیجنے کا 100 فیصل فیصلہ خود عمران خان نے کیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان یہ کبھی نہیں کہا کہ یہ فیصلہ میرا نہیں تھا۔ تاہم ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ نواز شریف کو جن میڈیکل رپورٹس کی بنیاد پر باہر بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا وہ جھوٹی ثابت ہوئی ہیں۔
ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اگر عوام عمران خان کیساتھ کھڑی ہے تو کوئی ان کا کوئی کچھ نہیں کر سکتا۔ ہم اسٹیبلمشنٹ کیساتھ ایک پیج پر ہیں۔ اس بات کا عمران خان کو کبھی کریڈٹ نہیں دیا جاتا۔ ہمیشہ یہی کہا جاتا تھا کہ وہ لوگوں کو ساتھ لے کر نہیں چلتے۔ مجھے بتایا جائے کہ ان کے علاوہ پاکستان میں آج تک کوئی ایسی حکومت آئی ہے جس کی عدلیہ اور فوج کیساتھ ہم آہنگی اور ورکنگ ری لیشن شپ ہو۔
ان کا کہنا تھا کہ کیا کسی کو عمران خان اور سپریم کورٹ کے درمیان کبھی کوئی اختلاف دیکھنے میں آیا۔ بطور شہری کو حق حاصل ہے کہ وہ عدالتی فیصلوں پر تنقید کر سکتا ہے۔ فیصلوں اور عدلیہ پر تنقید کرنے میں بہت فرق ہوتا ہے۔