'یہ مفروضہ پاش پاش ہو چکا کہ عمران خان دیانتدار انسان ہیں'

'یہ مفروضہ پاش پاش ہو چکا کہ عمران خان دیانتدار انسان ہیں'
سینئر صحافی کامران شاہد نے دنیا نیوز کے پروگرام 'آن دی فرنٹ' کے دوران پی ٹی آئی کے سابق رہنما اکبر ایس بابر سے سوال کیا کہ پی ٹی آئی کا فارن فنڈنگ کیس وزیراعظم عمران خان کی دیانت، امانت، ان کی مینجمنٹ اور ان کی پارٹی کی ٹرانسپرنسی پر سوال اٹھا رہا ہے۔ آپ کے پاس ان باتوں کے کیا حقائق ہیں۔

اکبر ایس بابر نے ان کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ غیر ملکی لابی کے تمام حقائق ریکارڈ پر موجود ہیں اور الیکشن کمیشن بھی ان حقائق کو سامنے لے آیا ہے۔ تاہم میں آپ سے ایک بات کہنا چاہتا ہوں کہ یہ جو آپ کہتے ہیں کہ عمران خان ایک دیانتدار انسان ہے مجھے اس پر شدید تحفظات ہیں۔

اکبر ایس بابر نے کامران خان کو کہا کہ ایک دیانتدار انسان دوسروں کی ڈیڑھ سو پیشیوں کی دوڑیں نہیں لگواتا۔ وہ 23 بنک اکاؤنٹس کو نہیں چھپاتا اور نہ ہی وہ الیکشن کمیشن کو یہ کہتا کہ آپ نے 23 بنک اکاؤنٹس ظاہر ہی نہیں کرنے۔

انہوں نے کہا کہ کیا کوئی ایماندار وزیراعظم ہائیکورٹ کو کہتا ہے کہ میں کسی عام شہری کو جوابدہ نہیں ہوں۔ کیا کوئی ایماندار شخص 7 رٹ پٹیشنز کرتا ہے کہ میری تحقیقات نہ کی جائیں۔ کیا کوئی ایماندار شخص سپریم کورٹ میں رٹ دائر کرتا ہے کہ یہ کیس الیکشن کمیشن کا دائرہ کار نہیں یا اکبر ایس بابر پی ٹی آئی کا ممبر نہیں ہے۔

اکبر ایس بابر نے کامران شاہد کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ خدا کا واسطہ ہے آپ لوگ جو چینلز پر بیٹھے ہوئے ہیں، آپ بار بار یہ تاثر نہ دیا کریں کہ عمران خان کوئی ایماندار انسان ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کیا دنیا میں کبھی ایسا ہوا ہے کہ ایک ایماندار انسان جو اس قسم کے لوگوں کو اپنے اردگرد لے کر بیٹھا ہو، جن کا ہر روز پاکستان میں ایک سے بڑھ کرایک ، کبھی شوگر اور کبھی آٹے سکینڈل نکلتا ہو ۔ اکبر ایس بابر نے کہا کہ آپ اینکرز اپنے ٹی وی پر بیٹھ کر روزانہ تنقید کرتے ہیں کہ ملک میں اربوں روپے کی میگا کرپشن ہو رہی ہے ، کیا ممکن ہے کہ کوئی ایماندار آدمی اس طرح کے لوگوں کے درمیان بیٹھا ہو۔ اس کے گرد ایماندار لوگ کیوں نہیں ہیں، یہ اب ایک فرضی داستان ہے کہ عمران خان ایک ایماندار آدمی ہے، اس میں کوئی صداقت نہیں ہے۔

اکبر ایس بابر نے کہا کہ آپ اینکرز کوئی بھی پروگرام شروع کرتے ہیں تو کہتے ہیں عمران خان ایماندار ہیں لیکن ان کے آس پاس کرپٹ لوگ ہیں، آپ ہمیشہ ایڈوائزرز کو نشانہ بناتے ہیں اور اس کی جڑ یا روٹ کاز پر نہیں جاتے ، ہمیں اس انسان کو پکڑنا چاہیئے جس نے وہ ٹیم بنائی ہے۔ جس نے ایسے احکامات جاری کیئے اور اب وہ چھ سال سے اپنے احتساب سے بھاگ رہا ہے۔

اکبر ایس بابر نے کہا کہ عمران خان ہمیشہ کہتا تھا کہ ایمپائر نیوٹرل ہونے چاہیئں لیکن آج الیکشن کمیشن مجھے لکھ کر کہتی ہے کہ ہم آپ کو یہ ڈاکومنٹس نہیں دیں گے کیونکہ پی ٹی آئی کو ہم پر اعتراض ہے، لہذا عمران خان ایمپائر کی انگلی پکڑ کر کیسے شفاف تحقیقات کروا سکتا ہے۔ انہوں نے تحقیقاتی عمل کو کیوں روک رکھا ہے۔

اکبر ایس بابر نے کامران شاہد کو کہا کہ خدا کا واسطہ ہے آپ روزانہ ٹی وی پر بیٹھ کر انہیں ایمانداری کی سندیں نہ دیا کریں، جو ہورہا ہے اس کے ذمہ دار عمران خان ہی ہیں۔

https://twitter.com/javedeqbalpk1/status/1484593554924216327

خیال رہے کہ 16 دسمبر 2017 کو سپریم کورٹ کے متنازع سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے عمران خان کو صادق اور امین قرار دیتے ہوئے انتخابات کے لئے اہل قرار دیا تھا۔ اسی فیصلے میں پی ٹی آئی کے سیکریٹری جنرل جہانگیر ترین کو آئین کے آرٹیکل 62 کے تحت نا اہل قرار دے دیا، ان پر زرعی آمدن، آف شور کمپنیوں، برطانیہ میں جائیداد اور اسٹاک ایکسچینج میں اِن سائڈ ٹریڈنگ سے متعلق الزامات تھے۔ تاہم سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی غیر ملکی فنڈنگ کیس الیکشن کمیشن آف پاکستان کو بھجوا دیا اور چیف جسٹس نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ وہ غیر ملکی فنڈنگ کیس سے متعلق اکاونٹس کا باریک بینی سے جائزہ لے۔

اس فیصلے کے تقریباً 4 سال بعد پی ٹی آئی فارن فنڈنگ کے حوالے سے الیکشن کمیشن کی سکروٹنی کمیٹی نے 4 جنوری 2022کو اپنی رپورٹ میں بتایا کہ پاکستان تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن میں 12 بینک اکاؤنٹس ظاہر کیے جبکہ 53 اکاؤنٹس کو چھپائے رکھا۔ اس کے علاوہ 31 کروڑ روپے سے زیادہ کے عطیات بھی الیکشن کمیشن میں ظاہر نہیں کیے گئے ۔

تحرک انصاف فارن فنڈنگ کیس میں الیکشن کمیشن کی قائم کردہ سکروٹنی کمیٹی کی 225 صفحات پر مشتمل رپورٹ کے مطابق تحریک انصاف نے 77 میں سے صرف 12 بینک اکاؤئنس ظاہرکیے ہیں جب کہ نیوزی لینڈ اور کینیڈا کے اکاؤنٹس تک رسائی نہیں دی گئی۔

سکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ کے دستاویزات کے مطابق کمیٹی نے قرار دیا کہ پی ٹی آئی کی آڈٹ رپورٹ اکاؤنٹنگ کے معیار پر پورا نہیں اترتی اور نہ ہی پارٹی کی جانب سے الیکشن کمیشن میں جمع کرائے گئے ڈیکلریشن میں بینک اکاؤنٹس ظاہر کیے گئے۔

واضح رہے کہ تحریک انصاف کے سابق رکن اکبر ایس بابر نے 2014 میں پارٹی فنڈز میں بےضابطگیوں کے خلاف الیکشن کمیشن میں ایک درخواست دائر کی تھی، جس پر الیکشن کمیشن کی سکروٹنی کمیٹی نے 96 سماعتیں کیں۔

اکبر ایس بابر نے یہ الزام عائد کیا تھا کہ دو آف شور کمپنیوں کے ذریعے لاکھوں ڈالر پی ٹی آئی کے بینک اکاؤنٹس میں منتقل کیے گئے اور تحریک انصاف نے یہ بینک اکاؤنٹ الیکشن کمیشن سے خفیہ رکھے۔

https://www.youtube.com/watch?v=D7edDxVxzeE